آفتاب کا عرش کے نیچے سجدے میں گرنا

حضرت ابو ذررضی اللّٰہ عنہ کو نبی ﷺ نے آفتاب کے متعلق بتایا کہ ڈوبنے کے بعد آفتاب عرش کے نیچے سجدے میں گر جاتا ہے اور صبح تک دوبارہ طلوع ہونے کی اجازت مانگتا رہتا ہے۔ اُمید ہے کہ آں جناب ازراہِ کرم اس حدیث سے متعلق میرے شبہات کو ملاحظہ فرمائیں گے اور ا س کی وضاحت کرکے میری پریشانی وبے اطمینانی رفع فرما دیں گے۔شکر گزار ہوں گا۔
جواب

حضرت ابو ذرؓ کی یہ حدیث[صحیح] بخاری کتاب بدء الخلق، باب صفۃ الشمس والقمر میں ہے۔اس کا جوخلاصہ آپ نے دیا ہے،وہ صحیح نہیں ہے۔اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے کہ’’نبیﷺ نے فرمایا: ’’جانتے ہو سورج غروب ہوکر جاتا کہاں ہے؟‘‘میں نے عرض کیا: ’’اﷲ اوراُس کا رسولؐ زیادہ جانتے ہیں ۔‘‘فرمایا: ’’وہ جاتا ہے اور عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے اور اجازت مانگتا ہے۔(یعنی پھر مشرق سے طلوع ہونے کی)اور اُسے اجازت دے دی جاتی ہے۔ایک وقت آئے گا کہ وہ سجدہ کرے گا اور اجازت مانگے گا مگر اجازت نہ ملے گی اور حکم ہوگا کہ پلٹ جا اور وہ مغرب سے طلوع ہوگا۔پھر آپؐ نے یہ آیت پڑھی:
وَالشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَــقَرٍّ لَّہَا۝۰ۭ ذٰلِكَ تَــقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِــيْمِ ({ FR 2153 }) ( یٰس :۳۸)({ FR 1866 })
اس میں دراصل جو مضمون بیان کیا گیا ہے وہ صرف یہ ہے کہ’’سورج ہر آن اﷲ تعالیٰ کے حکم کا تابع ہے،اُس کا طلوع بھی اﷲ ہی کے حکم سے ہوتا ہے اور اُس کا غروب بھی۔‘‘ سورج کا سجدہ کرنا ظاہر ہے کہ اس معنی میں نہیں ہے جس میں ہم نماز میں سجدہ کرتے ہیں ، بلکہ اس معنی میں ہے جس میں قرآن دنیا کی ہر چیز کو خدا کے آگے سربسجود قرار دیتا ہے،یعنی کلیتاً تابع امر ربّ ہونا۔ پھر سورج کا مغرب بھی ایک نہیں ہے بلکہ قرآن کی رُو سے بہت سے مغرب ہیں ،کیوں کہ وہ ہر آن ایک خطۂ زمین میں غروب اور ہر آن دوسرے خطے میں طلوع ہوتا ہے۔اس لیے اجازت مانگ کر طلوع وغروب ہونے کا مطلب ہر آن امر الٰہی کے تحت ہونا ہے۔ رہا اس کا کسی وقت مغرب سے طلوع ہونا،تو یہ بھی کوئی بعید بات نہیں ہے۔ہر وقت اس امر کا امکان ہے کہ دنیا کا قانون جذب وکشش یکایک ایک پلٹی کھا جائے اور سیاروں کی رفتار بالکل اُلٹ جائے۔طبیعیات اور ہیئت کے ماہرین میں سے کوئی بھی اس قانون کو اٹل نہیں مانتا اور نہ اس میں تغیر واقع ہونے،یا اس کے بالکل درہم برہم ہوجانے کو ناممکن سمجھتا ہے۔
رہا یہ امر کہ اس حدیث میں طلوع وغروب کو سورج کی گردش کا نتیجہ سمجھا گیا ہے نہ کہ زمین کی گردش کا، تو اس پر اعتراض کرنے والے کو دو باتیں اچھی طرح جان لینی چاہییں ۔ اوّل یہ کہ انبیا؊ طبیعیات اور ہیئت اور کیمیا کے مسائل بتانے کے لیے نہیں آئے تھے بلکہ عرفان حقیقت بخشنے اور فکر وعمل کی تصحیح کرنے کے لیے آئے تھے۔ان کاکام یہ بتانا نہ تھا کہ زمین حرکت کرتی ہے یا سورج، بلکہ یہ بتانا تھا کہ ایک ہی خدا زمین اور سورج کا مالک وفرماں روا ہے اور ہر چیز ہر آن اسی کی بندگی کررہی ہے۔دوسرے یہ کہ یہ بات حکمت تبلیغ کے بالکل خلاف ہے کہ مبلغ کے اپنے زمانے میں جو علم اشیا موجود ہو، اس کو چھوڑ کر وہ ہزارہا سال بعد کے علم اشیا کو تعلیم حقیقت کا ذریعہ بناے۔ اسے جن حقائق کو ذہن نشین کرنا ہوتا ہے،ان کی تفہیم کے لیے اُس کو لامحالہ اپنے زمانے ہی کے مواد علمی سے کام لینا پڑتا ہے،ورنہ اگر وہ ان معلومات سے کام لے جو صدیوں بعدانسان کے علم میں آنے والی ہوں تو اُس کے معاصرین اُس کی اصل تعلیم کو چھوڑ کر اس بحث میں لگ جائیں کہ یہ شخص کس عالم کی باتیں کررہا ہے اور ان میں سے ایک شخص بھی اُس کی تبلیغ سے متاثر ہوکر نہ دے۔
اب یہ آپ خود سوچ لیں کہ اگر کسی نبی کی تعلیم اُس کے معاصرین ہی کی سمجھ میں نہ آتی اور اُس کے عہد کے ہی لوگوں میں مقبول نہ ہوتی، تو وہ بعد کی نسلوں تک پہنچتی کیسے؟ اب سے ڈیڑھ ہزار برس پہلے اگر اوپر والی حدیث کا مضمون اس ڈھنگ سے بیان کیا جاتا کہ سننے والا طلوع وغروب کا سبب سورج کے بجاے زمین کی حرکت کو سمجھتا تو بے شک آج کے لوگ اُسے علم کا ایک معجزہ قرار دیتے،مگر آپ کا کیا خیال ہے کہ خود اُس زمانے کے لوگ اس معجزۂ علمی کا استقبال کس طرح کرتے؟اور پھر وہ اصل بات بھی کہاں تک ان کے دل ودماغ میں اُترتی جو اس مضمون میں بیان کرنی مقصود تھی؟اور جب کہ اس عہد کے لوگ ہی ایسے ’’علمی معجزات‘‘ کی بدولت ایمان لانے سے محروم رہ جاتے تو یہ معجزے آپ تک پہنچتے ہی کیا کہ آپ ان کی داد دیتے؟
(ترجمان القرآن، اکتوبر ونومبر۱۹۵۲ء)