بدعت کی تعریف و اقسام

کیا بدعت کی دو قسمیں ہیں :(۱) حسنہ اور (۲) سیئہ؟ بعض صاحبان حضرت عمر فاروق ؓ کے قول نعمت البدعۃ سے بدعت کے ’’حسنہ‘‘ہونے پر دلیل لاتے ہیں ۔ حدیث شریف میں کس قسم کی بدعت کو ضلالت کہا گیا ہے؟
جواب

شرعی اصطلاح میں جس چیز کو بدعت کہتے ہیں ،اس کی کوئی قسم حسنہ نہیں ہے،بلکہ ہر بدعت سیئہ اور ضلالہ ہی ہے۔جیسا کہ حدیث میں ارشاد ہوا ہے:کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ۔({ FR 1862 }) البتہ لغوی اعتبار سے محض نئی بات کے معنی میں بدعت حسنہ بھی ہوسکتی ہے اور سیئہ بھی۔ سیّدنا عمر فاروق ؓنے نماز تراویح باجماعت کے بار ے میں نِعْمَتِ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہ({ FR 1863 }) کے الفاظ جو فرمائے تھے، ان میں بدعت سے مراد اصطلاحی بدعت نہیں بلکہ لغوی بدعت ہی ہو سکتی ہے۔ اس لیے اسے بدعت کی ایک قسم ’’حسنہ‘‘ قرار دینے کے لیے دلیل نہیں بنایا جاسکتا۔
اس بات کو سمجھنے کے لیے پہلے بدعت کا شرعی مفہوم سمجھ لینا چاہیے۔ پھر یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا نماز تراویح باجماعت کا طریقہ رائج کرنا اس مفہوم کے اعتبار سے بدعت کی تعریف میں آتا بھی ہے؟
عربی زبان میں بدعت کا لفظ قریب قریب اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے جس میں لفظ ’’جدت‘‘ ہم اردو میں استعمال کرتے ہیں ۔یعنی ایک نئی بات جو پہلے نہ ہوئی ہو یا جس کی کوئی مثال موجود نہ ہو۔ لیکن شریعت میں یہ لفظ اس وسیع مفہو م میں استعمال نہیں ہوتا۔ نہ اس مفہوم میں ہر نئ چیز یا ہر نئے کام اور طریقے کو گمراہی قرار دیا گیا ہے۔شرعی اصطلاح میں بدعت سے مراد یہ ہے کہ جن مسائل ومعاملات کو دین اسلام نے اپنے دائرے میں لیا ہے،ان میں کوئی ایسا طرز فکر یا طرز عمل اختیار کرنا جس کے لیے دین کے اصلی مآخذ میں کوئی دلیل وحجت موجود نہ ہو۔ اس تعریف کی رو سے وہ مسائل ومعاملات یا مسائل و معاملات کے وہ پہلو جن سے دین نفیاً یا اثباتاً کوئی تعرض نہیں کرتا، جن کے متعلق صاحب شریعت نے خود فرمادیا کہ: اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِأمْرِ دُنْیَاکُمْ،({ FR 2022 }) بدعت وسنت کی بحث سے خود بخود خارج ہوجاتے ہیں ۔ کسی چیز کے بدعت ہونے یا نہ ہونے کا سوال صرف انھی امور میں پیدا ہوتا ہے جن میں انسان کی راہ نمائی کرنا دین نے اپنے ذمے لیا ہے اور جن میں اﷲ اور اس کے رسول نے احکام دیے ہیں یا اصولی ہدایات عطا فرمائی ہیں ،خواہ وہ عقائد اور خیالات وتصورات کے باب سے تعلق رکھتے ہوں یا اخلاق سے،یا عبادات اور مذہبی رسوم سے، یا معاشرت،تمدن، سیاست،معیشت اور دوسری ان چیزوں سے جنھیں عام طور پر دنیوی معاملات سے موسوم کیا جاتا ہے۔ان امور میں جب کوئی ایسی بات کی جائے گی جس کے ما ٔخذ کا حوالہ خدا کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی تعلیم وہدایت میں نہ دیا جاسکتا ہو، یا جس کے حق میں دین کے ان ما ٔخذ اصلیہ سے کوئی معقول دلیل نہ پیش کی جاسکتی ہو، تو وہ بدعت ہوگی،اور اگر وہ کتاب وسنت کی تعلیمات کے خلاف پڑتی ہو تو اس پر محض بدعت کا نہیں بلکہ فسق اور معصیت کا اطلاق ہوگا۔
بدعت کے شرعی مفہوم کی اس تشریح کے بعدیہ بات محتاج کلام نہیں رہتی کہ اس کے معنی میں جو چیز بدعت ہو، اس کے حسنہ ہونے کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔وہ تو لازماً سیئہ ہی ہو گی اور اس کو سیئہ ہی ہونا چاہیے۔ کیوں کہ دین نام ہے اس نظام کا جو خدا اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیم وہدایت پر مبنی ہو۔ اور اس نظام میں بہرحال ایسی کوئی چیز داخل نہیں ہوسکتی جو اس تعلیم و ہدایت پر مبنی نہ ہو۔ ایسی کوئی چیز جب بھی اس میں داخل ہوگی، اس نظام کے مزاج اور اس کی ترکیب کو بگاڑ دے گی۔ پھر کیسے تصور کیا جاسکتا ہے کہ کوئی بگاڑنے والی چیز حسنہ بھی ہو۔
حضرت عمرؓ کا باجماعت نماز تراویح جاری کرنے کا معاملہ
اب دیکھیے کہ حضرت عمرؓ نے جس چیز کو’’اچھی بدعت‘‘کہا تھا کیا وہ واقعی اسی معنی میں بدعت تھی جس میں کوئی شے اصطلاح شرع میں بدعت قرار پاسکتی ہے؟
جہاں تک نفس تراویح کا تعلق ہے،یعنی رمضان میں نماز عشا کے بعد قیام لیل، وہ تو صرف جائزہی نہیں ،مندوب اور مسنون بھی ہے۔کیوں کہ نبی ﷺنے اس کی ترغیب دی ہے، اس کو دوسرے دنوں کے قیام لیل سے زیادہ اہمیت دی ہے اور خود اس پر عمل فرمایا ہے۔ جہاں تک اس کے جماعت کے ساتھ پڑھنے کا تعلق ہے، اس پر بھی حضور ﷺ کے زمانے میں اور حضورﷺ کے علم میں عمل ہوا ہے اورآپؐ نے اسے جائز رکھا ہے۔چنانچہ مسند احمد میں حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ مسجد نبوی میں مختلف مقامات پر مختلف لوگ رمضان میں رات کے وقت نماز پڑھتے تھے۔ جس کو جتنا قرآن یاد ہوتا،وہ اتنا ہی پڑھتا، اور کسی کے ساتھ ایک،کسی کے ساتھ پانچ، کسی کے ساتھ سات یا کم وبیش مقتدی کھڑے ہوجاتے تھے۔ پھر جہاں تک ایک جماعت میں سب کو جمع کرکے ایک امام کے پیچھے تراویح پڑھنے کا تعلق ہے،اس پر بھی نبیؐ نے خود کئی مرتبہ عمل فرمایا ہے۔({ FR 2023 }) ترمذی ، ابودائود اور دوسری کتب سنن میں حضرت ابو ذرؓ ایک رمضان کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ مہینہ ختم ہونے میں سات دن باقی تھے کہ رات کے وقت حضور ﷺ نے ہم کو نما ز پڑھائی یہاں تک کہ ایک تہائی شب گزرگئی، پھر ایک دن چھوڑ کر ایک روز سحری کے وقت تک پڑھاتے رہے۔ ({ FR 2024 })
بخاری اور مسلم میں حضرت عائشہؓ ایک اور رمضان کا حال بیان فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ نے دو یا تین دن مسلسل نمازِ تراویح پڑھائی۔ پھر تیسرے یا چوتھے روز جب لوگ جمع ہوئے توآپؐ نماز پڑھانے کے لیے نہ نکلے، اور بعد میں اس کی وجہ یہ بیان کی کہ کہیں یہ فرض نہ قرار دے دی جائے۔({ FR 2025 })
اس سے معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ تو مسنون تھا۔اب جس چیز کو نئی بات کہا جاسکتا ہے، وہ صرف یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے اس طریقے کو ہمیشہ کے لیے جاری کردیا۔ اس چیز کو بدعت اس لیے نہیں کہا جاسکتا کہ حضور ﷺ نے ہمیشہ جماعت کے ساتھ تراویح نہ پڑھانے کی وجہ صرف یہ بیان فرمائی تھی کہ کہیں یہ لوگوں پر فرض نہ قرار دے دی جائے۔یہ وجہ خود اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ آپؐ کے نزدیک یہ طریقہ رائج ہونا اور تمام حیثیتوں سے تو پسندیدہ تھا،البتہ فرض قرار پاجانے کا اندیشہ اس میں مانع تھا کہ آپﷺ اسے رائج فرمائیں ۔ حضور ﷺ کی وفات کے بعد اس اندیشے کے لیے کوئی گنجائش باقی نہ رہی۔ کیوں کہ کسی دوسرے شخص کا عمل کسی چیز کے شریعت میں فرض ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا۔ اس لیے حضرت عمرؓ نے حضور ﷺ کے اس منشا کو پورا کردیا جو آپؐ کی اس توجیہ میں مضمر تھا۔ یعنی یہ کہ یہ طریقہ رائج تو ہو مگر مشروع اور مسنون طریقے کی حیثیت سے، نہ کہ فرض کی حیثیت سے۔ اس پر بعض لوگوں کو جب بدعت ہونے کا شبہہ ہوا تو حضرت عمرؓ نے یہ کہہ کر اسے رد کردیا کہ’’یہ اچھی بدعت ہے۔‘‘ یعنی یہ نئ بات تو ہے مگر اس نوعیت کی نئ بات نہیں ہے جسے شریعت میں مذموم قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام صحابہ ؓ نے بالاتفاق اس طریقے کے رواج کو قبول کیا اور ان کے بعد ساری اُمت اس پر عمل کرتی رہی۔ورنہ کون یہ تصور کر سکتا ہے کہ شرعی اصطلاح میں جس چیز کو بدعت کہتے ہیں ، اسے رائج کرنے کا ارادہ حضرت عمرؓ کے دل میں پیدا ہوتا اور صحابہ ؓ کی پوری جماعت بھی آنکھیں بند کرکے اسے قبول کر لیتی۔({ FR 1864 })
( ترجمان القرآن ، اکتوبر،نومبر ۱۹۵۷ء)