ہم لوگ جوکام کررہے ہیں اس کے لیے زیادہ سے زیادہ قرآن کا مطالعہ ضروری ہے۔ دشواری یہ پیش آتی ہے کہ سردی کے موسم میں بعض اوقات سخت سردی ہوتی ہے۔ تلاوت کو جی چاہتا ہےلیکن وضو کرنا دشوار ہوتاہے۔ بعض لوگ ریاحی مرض کے شکار ہوتے ہیں اور وہ تھوڑی دیر بھی وضو قائم نہیں رکھ سکتے۔ مفتی محمد یوسف صاحب (پاکستان) کا ایک طویل مضمون زیر مطالعہ ہے۔ اس میں انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’وضو کے بغیر قرآن کی تلاوت شرعی تلاوت ہے۔‘‘ براہ عنایت تحریر فرمائیے کہ اس معاملے میں شرعی احکام کیا ہیں ؟
جواب
بے وضو قرآن کی تلاوت ممنوع نہیں ہے بلکہ قرآن پاک کو چھونا ممنوع ہے۔ زبانی تلاوت قرآن بھی شرعی تلاوت ہےاور اطمینان کے ساتھ کی جاسکتی ہے۔ مفتی محمد یوسف صاحب نے جو بات لکھی ہے وہ غالباً یہی ہوگی۔ اگر بے وضو مسلمان اپنے حافظے سے تلاوت کرے یا کوئی ایسی صورت ہوکہ قرآن کو مس کیے بغیر اس میں دیکھ کر تلاوت کی جاسکتی ہو تو بالکل جائز ہے۔ یہ بات ذہن نشین کرلیجیے کہ بے وضو کے لیے قرآن کو یاکسی آیت کو صرف چھونا ممنوع ہے، فی نفسہ تلاوت ممنوع نہیں ہے، ہاں قرآن غلاف یا جزدان میں ہوتو بے وضو بھی اسے چھوسکتا ہے۔ جو لوگ ریاح کے ایسے مریض ہوں جو تھوڑی دیر بھی وضو قائم نہ رکھ سکتے ہوں وہ وضو کرکے قرآن کھولیں اور جتنی تلاوت کرنی ہو پوری کرلیں۔ درمیان میں وضو ٹوٹ جائے تو تلاوت بند نہ کریں۔ اگر سردی اتنی ہوکہ وضو دشوار ہو اور مطالعہ قرآن کے لیے کوئی دوسرا وقت بھی ملنا مشکل ہوتو میرے خیال میں تیمم کرکے قرآن کھولا جاسکتا ہے اور تلاوت کی جاسکتی ہے۔(جون ۱۹۷۱ء،ج ۴۶،ش۶)
تلاوتِ قرآن اور تیمم
مولانا عبدالماجد دریاآبادی لکھتے ہیں کہ زندگی بابت جون ۱۹۷۱ء پیش نظر ہے۔ آج سے ۳۲،۳۵ سال قبل کا ذکر ہے کہ میں نے حضرت مولانا تھانوی رحمہ اللہ علیہ کو خط لکھا کہ قرآن مجید اور تفسیروں کا مطالعہ تودن بھرہی رہتا ہے۔ لیکن سردی میں باربار وضو کرنا طبیعت کو کھل جاتاہے۔(سردی میں پیشاب اور زیادہ ہوتاہے) کوئی متبادل صورت ہم ضعفاء کے لیے تجویز فرمائیں۔ جواب کے الفاظ تو اب یاد نہیں لیکن ان کا مفہوم بالکل یہ تھا کہ ’’ایسی صورت میں تیمم کرکے قرآن مجید پڑھ سکتے ہیں۔ چنانچہ اس وقت سے اس بے علم کا عمل اسی پر ہے۔‘‘
آپ کو اس لیے لکھ دیا کہ شاید آپ کے بعض ناظرین کو اس سے کچھ اطمینان حاصل ہوجائے۔
نوٹ
رسائل ومسائل میں ڈرتے ڈرتے یہ رائے ظاہر کی گئی تھی کہ سخت سردی کے موسم میں تیمم کرکے قرآن مجید کھول کراس میں تلاوت کی جاسکتی ہے۔ مولانا عبدالماجد دریاآبادی مدمجدہ کا مکتوب پڑھ کر خوشی حاصل ہوئی کہ حضرت مولانا تھانوی رحمہ اللہ نے بھی اس کی اجازت دی تھی۔ اس خط سے اپنی رائے پرمیرا اعتماد بڑھ گیا۔ اور امید ہے کہ قارئین زندگی کو بھی اس سے اطمینان حاصل ہوگا۔
(اگست ۱۹۷۱ء،ج۴۷،ش۲)