تدوین ِقرآن

ماہ ستمبر ۱۹۷۵ کے ترجمان القرآن میں رسائل و مسائل کا مطالعہ کرکے ایک شک میں پڑ گیا ہوں ۔ امید ہے آپ اسے رفع فرمائیں گے تاکہ سکون میسر ہو۔ ’’رد و بدل‘‘ کی صریح مثال کے سلسلے میں آپ نے لکھا ہے کہ قرآن متفرق اشیا پر لکھا ہوا تھا جو ایک تھیلے میں رکھی ہوئی تھیں ۔ حضورﷺ نے اسے سورتوں کی ترتیب کے ساتھ کہیں یک جا نہیں لکھوایا تھا اور یہ کہ جنگ یمامہ میں بہت سے حفاظ شہید ہوگئے تھے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ: کیا حفاظ اسے کسی ترتیب سے یاد کرتے تھے یا بلاترتیب؟ کیا اس کی ترتیب حضرت صدیقؓ کے زمانے میں ہوئی؟ اگر ترتیب وہی حضور ﷺ کی دی ہوئی تھی تو رد و بدل کیسے ہوگیا؟ اللّٰہ نے جو قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے وہ کیا ہے؟
جواب

رسائل و مسائل کی بحث کو پڑھنے سے آپ کے ذہن میں جو شکوک پیدا ہوئے ہیں وہ بآسانی رفع ہوسکتے ہیں ، اگر آپ حسب ذیل باتوں کو اچھی طرح سمجھ لیں ۔
رسول اللّٰہ ﷺ نے اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت قرآن پاک کو جس حالت میں چھوڑا تھا وہ یہ تھی کہ اپنی مکمل اور مرتب صورت میں وہ صرف ان حافظوں کے سینوں میں محفوظ تھا جنھوں نے حضور ﷺ سے سیکھ کر از اول تا آخر یاد کیا تھا۔ تحریری شکل میں آپؐ نے اس کا لفظ لفظ لکھوا ضرور دیا تھا، مگر وہ متفرق پارچوں پر لکھا ہوا تھا جنھیں ایک مسلسل کتاب کی صورت میں مرتب نہیں کیا گیا تھا۔ بعض صحابہؓ نے اس کے کچھ اجزا اپنے طور پر لکھ لیے تھے، مگر کسی کے پاس پورا قرآن لکھا ہوا نہ تھا۔ بہت سے لوگوں نے قرآن کے مختلف حصے یاد بھی کر رکھے تھے، لیکن ان اصحاب کی تعداد بہت کم تھی جنھیں حضورؐ کی سکھائی ہوئی ترتیب کے ساتھ پورا قرآن یاد تھا۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت ابوبکر؄ کے زمانے میں جب حفاظ کی ایک اچھی خاصی تعداد لڑائیوں میں شہید ہو گئی تو حضرت عمر ؄ نے یہ خطرہ محسوس کیا کہ اگر قرآن کے حافظ اسی طرح شہید ہوتے رہے اور امت کے پاس صرف متفرق حالت میں لکھا ہوا یا جزوی طور پر یاد کیا ہوا قرآن ہی رہ گیا تو اس کا بڑا حصہ ضائع ہو جائے گا، کیونکہ وہ اپنی مکمل ترتیب کے ساتھ صرف ان حافظوں کے سینوں ہی میں محفوظ تھا۔
اس اندیشے کی بنا پر جب حضرت عمرؓ نے صدیق اکبرؓ کو پورا قرآن ایک مصحف کی شکل میں یک جا تحریر کرا دینے کا مشورہ دیا تو انھوں نے اول اول یہ شبہہ ظاہر کیا کہ میں وہ کام کیسے کرسکتا ہوں جو رسول اللّٰہ ﷺ نے نہیں کیا ہے اور یہی شبہہ حضرت زید بن ثابتؓ نے اس وقت ظاہر کیا جب شیخین نے انھیں جمع قرآن کی خدمت انجام دینے کے لیے کہا۔ دونوں بزرگوں کے شبے کی بنیاد یہ تھی کہ قرآن کی حفاظت کے لیے حفاظ کے حفظ پر اعتماد کرنا اور ایک مصحف کی شکل میں اسے یک جا لکھوا دینے کا اہتمام نہ کرنا رسول اکرم ﷺ کی سنت ہے۔ اب ہم اس سنت کو بدلنے کے کیسے مجاز ہوسکتے ہیں ؟ مگر جس چیز نے بالآخر انھیں مطمئن کر دیا وہ حضرت عمرؓ کی یہ بات تھی کہ دین و ملت کی بھلائی اسی کام کو انجام دینے میں ہے۔({ FR 2064 }) ظاہر ہے کہ اگر اس بنیاد پر سنت سے ہٹ کر ایک کام کرنے کی شریعت کے اندر کوئی گنجائش نہ ہوتی تو صدیق اکبرؓ اور فاروقِ اعظمؓ اسے جائز کیسے رکھ سکتے تھے، اور ساری امت اس کے صحیح ہونے پر متفق کیسے ہوسکتی تھی۔
میں نے اس معاملے کو ’’رد و بدل‘‘ کی مثال اس معنی میں ہرگز قرار نہیں دیا کہ معاذ اللّٰہ صدیق اکبرؓ اور ان کے رفقائے کار نے قرآن کے الفاظ یا اس کی ترتیب میں رد و بدل کر ڈالا تھا، بلکہ اس سے میرا مطلب وہی ہے جو حضرت عمرؓ کی تجویز پر خود صدیق اکبرؓ اور حضرت زید بن ثابتؓ کے ابتدائی جواب کا مطلب تھا۔