ترکِ سنت اور مقامِ ولایت

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آپ ہمیشہ ہر مسئلے کا گول مول جواب دیتے ہیں ،اور اگر مزید وضاحت چاہی جائے تو آپ بگڑ جاتے ہیں یا پھر جواب سے بے بس ہوکر انکار کردیتے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں ہنوز ایسے انسانوں کا ہم خیال نہیں ہوں ،کیوں کہ جہاں تک میں جانتا ہوں ،آپ ہمیشہ مسئلے کو دوٹوک اور وضاحت سے سمجھاتے ہیں ۔خدا کرے میرا یہ حسن ظن قائم رہے۔ گزارشات بالا کا لحاظ رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیجیے: (۱)کوئی تارک الدنیا بزرگ ولی ہوسکتا ہے یا نہیں ؟ (۲) حضرت رابعہ بصریؒ نے کیوں سنت نکاح کو ترک کیا تھا؟ (۳) حضرت خواجہ نظام الدین اولیا محبوب الٰہی کے متعلق کہاجاتا ہے کہ انھوں نے اپنے پیرو مرشد حضرت خواجہ سیّد بابا فرید الدین گنج شکر کے ایک باطنی اشارے پر تاعمر شادی نہ کی تھی۔ آپ کے نزدیک پیرو مرشد کا خلاف سنت اشارہ کرنا اور مرید کا باوجود استطاعت کے سنت نکاح کو ترک کرنا کس حد تک درست ہے؟
جواب

میں معقول اور ضروری سوالات کا جواب تو ہمیشہ وضاحت کے ساتھ دینے کی کوشش کرتا ہوں ، مگر بے کار اور غیرضروری سوالات کے معاملے میں پیچھا چھڑانے کے سوا مجھے اور کوئی صحیح طریقہ معلوم نہیں ہے۔ اب آپ خود اپنے سوالات پر غور کیجیے۔ اگر آپ صرف پہلے سوال پر اکتفا کرتے تو میں با ٓسانی یہ جواب دے سکتا تھا کہ تارک سنت ولی نہیں ہوسکتا ۔اگر آپ تیسرے سوال کا صرف آخری حصہ پوچھتے تو اس کا بھی یہ جواب دیا جاسکتا تھا کہ کسی کے مشورے یا حکم سے ترک سنت جائز نہیں ہے۔مگر آپ اس سے آگے بڑھ کر دو مرحوم بزرگوں کا بھی مقدمہ پیش کردیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ میں ان کے مقدمے کا فیصلہ سنائوں ۔آپ بتائیے کہ آپ کا خود اس بحث میں پڑنا اور پھر مجھے بھی اس میں اُلجھانے کی کوشش کرنا کہاں تک صحیح ہے؟میرے یا آپ کے پاس یہ جاننے کا کیا ذریعہ ہے کہ حضرت رابعہ بصریہؒ نے اس قدر متبع سنت ہونے کے باوجود کیوں شادی نہ کی اور حضرت نظام الدینؒ کو ان کے شیخ نے کن مخصوص حالات یا اسباب کی بِنا پر مشورہ دیا ، اور دیا بھی تھا یا نہیں دیا۔ سارے حالات نہ میرے سامنے ہیں نہ آپ کے سامنے، اگر میں حالات سے واقفیت کے بغیر ان بزرگوں پر کوئی حکم لگائوں تو زیادتی کروں گا۔ اگر ان کے فعل کی تأویل کروں تو دوسرے لوگوں کے لیے بھی ترک سنت کی ترغیب کا ذریعہ بنوں گا۔ اور پھر نفس مسئلہ کو سمجھنے کے لیے اس کی کوئی حاجت بھی نہیں ہے کہ آج میں یا آپ پچھلے بزرگوں کے معاملات کا فیصلہ کریں ۔آپ خود مجھے بتایے کہ اس طرح کے سوالات سے اگر میں پیچھا چھڑانے کی کوشش نہ کروں تو کیا کروں ؟ اسی طرح کے سوالات وجوابات کے بارے میں تو نبیﷺ سے فرمایا گیا ہے:
فَلَا تُمَارِ فِيْہِمْ اِلَّا مِرَاۗءً ظَاہِرًا۝۰۠ وَّلَا تَسْتَفْتِ فِيْہِمْ مِّنْہُمْ اَحَدًا ط ( الکہف:۲۲)
’’ان کے معاملے میں صرف سرسری بحث کیجیے اور ان سے متعلق ان میں سے کسی سے پوچھ گچھ نہ کیجیے۔‘‘
(ترجمان القرآن ، جولائی ۱۹۵۶ء)