تعدّدِ ازواج

قرآن کریم میں تعدد ازواج کی بابت ایک ہی آیت (النسآء:۴) ہے جو حقوق یتامیٰ کی حفاظت کے ساتھ وابستہ ہے۔ کیا آپ کے نزدیک جہاں حقوق یتامیٰ کا سوال نہ ہو وہاں تعدّد ازواج کو ممنوع کیا جا سکتا ہے؟
جواب

یہ خیال غلط ہے کہ قرآن مجید کی مذکورہ آیت کا حکم حقوقِ یتامیٰ کی حفاظت کے ساتھ وابستہ ہے اور یہ راے بھی غلط ہے کہ جہاں حقوق یتامیٰ کا سوال نہ ہو وہاں تعددّ ازواج کو ممنوع کیا جا سکتا ہے۔ قرآن مجید میں بکثرت مثالیں ایسی موجود ہیں جن میں ایک حکم بیان کرنے کے ساتھ ان حالات کا بھی ذکر کیا گیا ہے جن میں اس حکم کے بیان کی حاجت پیش آئی ہے۔ یا جن میں اس کی ضرورت پیش آ سکتی ہے، یا جن سے وہ حکم متعلق ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا اور کسی قانون داں آدمی سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اس سے یہ نتیجہ نکالے گا کہ ایسا ہر حکم صرف انھی حالات کے ساتھ ’’وابستہ‘‘ ہے جن کا ذکر کر دیا گیا ہے اور دوسرے تمام حالات میں اس حکم پر عمل کرنا یا اس اجازت سے فائدہ اٹھانا ممنوع ہے۔ مثال کے طور پر سورۂ البقرہ کی آیت ۲۸۳میں فرمایا گیا ہے کہ اگر تم سفر پر ہو اور (قرض کی دستاویز لکھنے کے لیے) تم کو کاتب نہ ملے تو پھر رہن بالقبض ہونا چاہیے۔ کیا قانون کی سمجھ رکھنے والا کوئی آدمی اس کا یہ مطلب لے سکتا ہے کہ اسلامی شریعت میں رہن بالقبض کا جواز صرف سفر اور کاتب نہ ملنے کی حالت کے ساتھ وابستہ ہے؟ اسی طرح سورۂ النساء کی آیت ۲۳ میں جن عورتوں کے ساتھ نکاح حرام کیا گیا ہے ان میں سوتیلی بیٹی کی حرمت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: اور تمھاری وہ پروردہ لڑکیاں جو تمھاری گودوں میں ہیں تمھاری ان بیویوں سے جن کے ساتھ تم ہم بستر ہو چکے ہو۔ کیا اس کا یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ سوتیلی بیٹی کی حرمت صرف اس حالت کے ساتھ وابستہ ہے جب کہ اس نے سوتیلے باپ کے گھر میں پرورش پائی ہو؟
ان مثالوں سے یہ بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ تعدد ازواج کی اجازت جس آیت میں بیان ہوئی ہے اس کے ساتھ حقوقِ یتامیٰ کی حفاظت کا ذکر کرنے کا مقصد اس اجازت کو صرف اسی حالت کے ساتھ وابستہ کر دینا نہیں ہے جب کہ یتامیٰ کا کوئی معاملہ درپیش ہو۔ بلکہ اگر اس موقع و محل کو دیکھا جائے جس میں یہ آیت آئی ہے تو نتیجہ اس کے بالکل برعکس نکلتا ہے۔ تعددّ ازواج اس آیت کے نزول سے پہلے عرب میں رائج تھا، نبی ﷺ خود متعددّ بیویاں رکھتے تھے، اور بکثرت صحابہ کرام کے گھروں میں ایک سے زائد بیویاں موجود تھیں ۔ قرآن میں اس کی کوئی ممانعت نہ آنا بجاے خود اس رواج کے جواز کے لیے کافی دلیل تھا۔ اس لیے یہ آیت دراصل تعدد ازواج کی اجازت دینے کے لیے نازل ہی نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ جنگ اُحد کے بعد اس کے نزول کا مقصد مسلمانوں کو یہ راہ نمائی دینا تھا کہ جنگ اُحد کے نتیجے میں بہت سے لوگوں کی شہادت سے یتامیٰ کی پرورش کا جو مسئلہ پیدا ہوگیا ہے اس پر پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ‘ اس مسئلے کو تم لوگ تعدد ازواج کے طریقے سے حل کر سکتے ہو جو پہلے ہی سے تمھارے لیے جائز ہے۔ اس طرح اس آیت نے کوئی نئی اجازت نہیں دی ہے بلکہ پہلے سے جو اجازت عملاً چلی آ رہی تھی اس سے ایک خاص اجتماعی مسئلے کو حل کرنے میں مدد لینے کی تلقین کی ہے۔ البتہ نئی بات اس میں صرف یہ تھی کہ پہلے تعدد ازواج غیر مقیّد تھا اور اب اس کو زیادہ سے زیادہ چار کی حد کے ساتھ مقیّد کر دیا گیا۔ اس پس منظر سے جو شخص واقف ہو وہ کبھی اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا کہ اس آیت میں تعدد ازواج کی پہلی مرتبہ اجازت دی گئی تھی اور اس اجازت کو صرف اس حالت کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا تھا جب کہ یتامیٰ کے حقوق کی حفاظت کے لیے اس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت پیش آئے۔