تقسیم میراث کے بعض مسائل

(۴) چند مسائل حل طلب درپیش ہیں۔ مہربانی کرکے ان کے شرعی جوابات عنایت فرمائیں۔

زید کے پانچ لڑکے تھے الف، ب،ت، ث، ج۔ لڑکی صرف ایک تھی جس کا انتقال بعد ولادت ایک لڑکے، زید کی زندگی میں ہوگیا تھا۔ نواسا زندہ ہے۔ زید کی زندگی میں اس کے بڑے لڑکے الف کا بھی انتقال ہوگیا۔اس نے دولڑکے اور ایک بیوہ چھوڑی۔ اس بیوہ سے زید نے اپنے پانچویں لڑکے ج کا نکاح کردیا۔ زید نے اپنے لڑکوں کو علیحدہ کردیا اور صرف اپنے لڑکے ج اوراس کی منکوحہ اور یتیم پوتوں کی شرکت میں زندگی بسرکرنے لگا۔ الف مرحوم کی بیوہ پانچ سال ج کی منکوحہ رہ کر انتقال کرگئی۔ ج کی کوئی اولاد مرحومہ سے نہ ہوئی۔ کچھ عرصے کے بعد زید کی زندگی ہی میں چوتھے لڑکے ث کا انتقال ہوگیا اور زید نے ث کے بیوہ سے بھی عدت گزارنے کے بعد ج کا نکاح کردیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد زید کا انتقال ہوا۔ انتقال کے وقت زید کے تین لڑکے ب، ت، ج موجود تھے۔ زید نے اپنی زندگی میں اپنے دونوں یتیم پوتوں کو ایک مکان دے دیاتھا جو مشترکہ حویلی کا ایک حصہ تھا۔ قریب پانچ ماہ قبل مرحوم زید کے پانچویں لڑکے ج کا بھی انتقال ہوگیا۔ ج کی دوسری منکوحہ سے بھی اس کی کوئی اولا د نہیں ہوئی۔ مرحوم ج نے کچھ مال واسباب اور رہائشی مکان چھوڑا ہے۔ جس پروہ اپنے والد زید کی موجودگی ہی کے وقت قابض تھا۔ یہ تمام مال واسباب اور مکان بیوہ کے قبضہ میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ عورت کو اپنے دونوں شوہروں کے ترکے میں کتنا حصہ ملے گا او رمکان جس پر وہ قابض ہے اور جس میں جھگڑا پیداہوگیا ہے کس کی ملکیت ہوگی؟ عورت کا حصہ نکالنے کے بعد ب اور ت کو کیاملے گا؟

ایک اور مسئلہ جواب طلب یہ ہے کہ ج کی بیوہ سے الف مرحوم کے دونوں لڑکوں میں سے کسی ایک کا نکاح جائز ہے یا نہیں ؟ یہ عورت ان لڑکوں کی چچی بھی ہوتی ہے او ران لڑکوں کی سوتیلی ماں بھی ہوتی ہے کیوں کہ ان لڑکوں کی والدہ کا نکاح بھی ج سے ہواتھا او رپھر ج کا نکاح اس عورت سے جو موجود ہے، ہواتھا۔ ان یتیم لڑکوں کا زید کی میراث میں کوئی حصہ ہے یا نہیں ؟ اور وہ مکان جس میں یہ دونوں رہتے ہیں، ان کی ملک ہے یا نہیں ؟ زید نے کوئی وصیت نہیں کی اور نہ زبانی ہبہ کیا بلکہ صر ف عملاً مکان ان دونوں کو رہنے کے لیے دے دیاتھا۔

جواب

 آپ نے جو تفصیل لکھی ہے او رجو سوالات کیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے

(۱)      زید کے انتقال کے وقت اس کے پانچ بیٹوں اورایک بیٹی میں سے صرف تین زندہ تھے، ان تین میں سے ج کا انتقال اب ہواہے۔

(۲)     زید کے پوتوں کا اس ترکے میں کوئی حصہ ہے یا نہیں ؟ اور وہ مکان جس میں وہ مقیم ہیں ان کی ملکیت ہے یا نہیں ؟

(۳)     جو عورت موجو د ہے اس کو اس کے دونوں شوہروں کے ترکے میں کتنا حصہ ملے گا۔ اس کے بعد ث اور ج کے دو زندہ بھائیوں کو کتنا حصہ ملے گا؟

(۴)     جو عورت موجود ہے اس کا نکاح الف کے کسی لڑکے سے ہوسکتا ہے یا نہیں ؟

ان سوالات کے مختصر جوابات نمبروار یہ ہیں 

(۱)      زید کے تین بیٹے جو زید کی وفات کےوقت موجود تھے وہی زید کے وارث ہوں گے۔

(۲)     زید کا نواسا اور اس کےدونوں پوتے زید کی وراثت سے محروم ہیں۔ کیوں کہ نواسے کی ماں بھی اپنے باپ کی زندگی میں وفات پاگئی تھی اور پوتوں کا باپ بھی انتقال کرچکا تھا۔ ان تینوں کا زید کے ترکے میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

اسی طرح وہ مکان بھی جس میں پوتے رہتے ہیں وہ اس کے مالک نہیں ہیں۔ کیوں کہ زید نے اس کے بارے میں نہ کوئی وصیت کی اور نہ زبانی یا تحریری ہبہ کیابلکہ صرف عاریۃً ان کو رہنے کے لیے دے دیاتھا۔ اس مکان کےمالک زید کے تینوں لڑکے ہوئے جو زید کی وفات کے وقت موجود تھے۔

(۳)     آپ نے اس کی صراحت نہیں کی ہے کہ اس عورت سے ث کی کوئی اولاد ہے یا نہیں ؟ انداز یہ ہے کہ اس عورت سے ث کی بھی کوئی اولاد نہیں ہے۔ اگر بات یہی ہوتواس عورت کو دونوں شوہروں میں سے ہرایک کے ترکہ میں چوتھائی حصہ (ربع ) ملے گا۔ آپ نے یہ نہیں لکھا ہے کہ ث کی اپنی کوئی جائداد یا مال واسباب موجود ہے یا نہیں۔ واضح رہے کہ زید کے ترکے میں ث کا کوئی حصہ نہیں ہے۔

بہرحال عورت کو دونوں شوہروں کے ترکے میں چوتھا حصہ دینے کے بعد جو کچھ بچے گا وہ ج کے دونوں بھائیوں کا ہوگا جو زندہ ہیں۔

(۴)     ث کی بیوہ جو بعد کو ج کے نکاح میں آئی اورپھر بیوہ ہوئی وہ الف کے دونوں لڑکوں کی صرف چچی ہے سوتیلی ماں نہیں ہے۔ جس شخص کے حقیقی باپ نے اس کی ماں کے علاوہ کسی دوسری عورت سے نکاح کیا ہو شرعاً صرف وہی سوتیلی ماں ہوتی ہے اوراس سے نکاح حرام ہوتاہے۔ چوں کہ وہ عورت الف کے لڑکوں کی صرف چچی ہے اس لیے ایک لڑکے سے اس کا نکاح ہوسکتاہے۔

(اکتوبر۱۹۷۲ء ج۵۲ ش۴)