جماعتِ اسلامی کا ساتھ نہ دینے پرمؤاخذہ

خاک سار کچھ سوالات کرکے جناب کو جواب دینے کی زحمت دینا چاہتا ہے، اگرچہ جناب کی مصروفیتوں کے پیش نظر مناسب نہیں معلوم ہوتا، تاہم میں جناب ہی سے ان سوالات کے جوابات معلوم کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہوں ، کیوں کہ ان میں بعض اہم سوالات اس نصب العین اور اس تنظیم سے متعلق ہیں جن کا شہود اور جس کا وجود اس دور میں آپ کی مساعی جمیلہ کا نتیجہ ہے۔ میں ۹ سال سے اس جماعت سے تعلق رکھتا ہوں ۔ اس عرصے میں ،میں نے اس کی تقریباً تمام کتابیں پورے غور وخوض کے ساتھ پڑھیں اور ایک قلبی احساس فرض کے تحت بلکہ ایک اندرونی دبائو کے تحت اس میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کی۔میں نے قرآن وسنت کے دلائل سے مطمئن ہوکر ا س جماعت کے نظم سے منسلک ہونا اپنے ایمان واصلاح کا تقاضا سمجھا۔ میں جذباتی طور پر نہیں بلکہ پورے عقل وہوش کے ساتھ یہ خیالات رکھتا ہوں کہ جس شخص پر اس جماعت کا حق ہونا واضح نہ ہوا ہو ،اس کا معاملہ تو اﷲ تعالیٰ کے یہاں لائق عفو ودرگزر ہے، لیکن جس شخص کے دل ودماغ نے پکار کر یہ کہہ دیا ہو کہ اس برصغیر میں یہی ایک جماعت ایسی ہے جو اس دور میں حق کا کام صحیح طریق پر کررہی ہے اور اس جماعت کے علاوہ اس سرزمین میں اور کوئی جماعت ایسی نہیں جس کا دامن فکر وکردار من حیث الجماعت اس طرح ہر آمیزش سے پاک ہو، تو اس پر عند اﷲ یہ فرض عین ہوجاتا ہے کہ وہ اس جماعت سے منسلک ہو اور اگر وہ اس وقت کسی دنیوی مصلحت کے پیش نظر یا کسی نفسانیت کی بِنا پر اس جماعت سے اپنا تعلق منقطع کرے تو اﷲ تعالیٰ کے یہاں اس سے مؤاخذہ ہو گا۔ اﷲ جانتا ہے کہ میں نے ان سطور میں کسی گروہی عصبیت یا مبالغے سے کام نہیں لیا ہے، بلکہ اس ناچیز نے جو کچھ سمجھا ہے،وہ ظاہر کردیا ہے۔ اگر اس میں غلط فہمی کام کررہی ہے تو اسے رفع فرمایئے۔
جواب

جماعت کے متعلق آپ نے اپنا جو نقطۂ نظر بیان کیا ہے،قریب قریب وہی نقطۂ نظر تشکیل جماعت کے موقع پر میں نے بیان کیا تھا اور اس کے بعد برابر میں یہ بات لوگوں کے ذہن نشیں کرتا رہا ہوں کہ حق واضح ہوجانے اور یہ بات سمجھ لینے کے بعد کہ یہ جماعت برسر حق ہے ،اس کا ساتھ نہ دینا اﷲ تعالیٰ کے ہاں قابل مؤاخذہ ہے۔البتہ وہ لوگ معافی کے مستحق ہوسکتے ہیں جو جماعت کے موقف کے بارے میں کوئی شک رکھتے ہوں ، یا اخلاص ودیانت کے ساتھ اس سے مطمئن نہ ہوں ۔
(ترجمان القرآن،جولائی ۱۹۵۷ء)