جماعت اسلامی کے تعلیمی پروگرام کے بارے میں ایک اندیشہ

تعلیمی کانفرنس کی مجوزہ اسکیم (شائع شدہ ترجمان القرآن و کوثر) بہت اہم اور ضروری ہے لیکن مجھے اس کے متعلق کچھ شبہات ہیں ۔ میں صاف کہوں گا کہ اگر میرا بس چلے تو بقول برناڈشا ’’میں تمام دنیا کی یونی ورسٹیوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں ۔‘‘ آپ خود سوچیں کہ آنحضرتﷺ نے کون سی یونی ورسٹی یا کالج بنایا تھا۔ مگر پھر بھی عظیم الشان ہمہ گیر انقلاب برپا کر دکھایا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ افیون کی اس گولی سے کام کی رفتار بہت سست ہو جائے گی اور جماعت اسلامی کا ادارہ ایک انقلابی اسلامی ادارہ کے بجائے زیادہ سے زیادہ ایک تجارتی ادارہ بن کے رہ جائے گا۔ کیا دیوبند اور جامعہ ملیہ اور اسی طرز کی دوسری درسگاہیں انقلابی تحریکات کا مرکز بن سکتی ہیں ؟ وہاں یقیناً درس و تدریس بھی ہے اور قال اللہ اور قال الرسول کا غلغلہ بھی۔ لیکن کیا صحیح معنوں میں رسول اللہﷺ کے اصل مشن کے لیے کوئی کام ہو رہا ہے؟ اس لیے سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہیے۔
جواب

آپ کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ نبیﷺ نے کوئی تعلیم گاہ قائم نہیں کی تھی۔ اگر اس کا نام یونی ورسٹی یا کالج نہیں تھا تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہاں کوئی درس گاہ یا تربیت گاہ نہ تھی۔ نبیﷺ نے مدینہ طیبہ جانے کے بعد سے تعلیم اور اخلاقی تربیت دونوں چیزوں پر مسلسل توجہ فرمائی۔ خصوصیت کے ساتھ اصحاب صفہ تو براہ راست آپ کے زیر تعلیم و تربیت تھے۔ پھر آپ نے انھی تربیت یافتہ لوگوں سے بڑے پیمانہ پر تعلیم و تبلیغ اور جہاد کاکام لیا۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جو تحریک تعمیری اور اصلاحی انقلاب چاہتی ہے اور جس کے پیش نظر صرف توڑ پھوڑ کی قسم کا انقلاب نہیں ہوتا وہ کبھی تعلیم کے انتظام سے غافل نہیں ہوسکتی۔
آپ کو جو اندیشے ہیں وہ اصل بے مقصد تعلیم گاہوں کو دیکھ کر پیدا ہوئے ہیں جن کے لیے محض ایک درس گاہ کا چلانا ہی بجاے خود مقصود ہوتا ہے یا جن کا مقصود کسی خاص کو رس کو پڑھا دینے سے آگے نہیں بڑھتا۔ لیکن ایک بامقصد تعلیم گاہ جس کے پیش نظر واضح طور پر ایک خاص نصب العین کے لیے آدمیوں کو تیار کرنا ہو وہ تو حقیقت میں ہر اصلاحی انقلابی تحریک کی جان ہے اور اسی پر تحریک کا پاے دار بنیادوں پر چلنا منحصر ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی میں سیکڑوں آدمی اپنی جگہ لینے والے تیار نہ کریں تو یہ تحریک محض دو چار آدمیوں کی شخصیتوں سے وابستہ رہے گی اور ان کے مرتے ہی تحریک بھی مر جائے گی۔
برنارڈ شا ایک مسخرہ آدمی ہے جس نے کبھی تمام عمر کسی تعمیری یا اصلاحی تحریک کے لیے کوئی انقلابی کام نہیں کیا ہے۔ اس کے چٹخارے والے فقروں کی پیروی کرکے آپ کہیں نہیں پہنچ سکتے۔ (ترجمان القرآن جنوری، فروری ۱۹۴۵ئ)