جماعت ِاسلامی اور صوبہ سرحد کا ریفرنڈم

جیسا کہ آپ کو معلوم ہے صوبۂ سرحد میں اس سوال پر ریفرنڈم(۱۹۴۷ء) ہورہا ہے کہ اس صوبے کے لوگ تقسیمِ ہند کے بعد اپنے صوبے کوہندستان کے ساتھ شامل کرانا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ۔ وہ لوگ جو جماعت اسلامی پر اعتماد رکھتے ہیں ،ہم سے دریافت کرتے ہیں کہ ان کو اس استصواب میں راے دینی چاہیے اور کس طرف سے راے دینی چاہیے؟کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ اس استصواب میں بھی ہماری پالیسی اسی طرح غیر جانب دارانہ ہونی چاہیے جیسے مجالسِ قانون ساز کے سابق انتخابات میں رہی ہے، ورنہ ہم پاکستان کے حق میں اگر ووٹ دیں گے تو یہ ووٹ آپ سے آپ اس نظام حکومت کے حق میں بھی شمار ہوگا جس پر پاکستان قائم ہورہا ہے۔
جواب

استصوابِ راے کا معاملہ مجالسِ قانون ساز کے انتخابات کے معاملے سے اُصولاً مختلف ہے۔ استصوابِ راے صرف اس امر سے متعلق ہے کہ تم کس ملک سے وابستہ رہنا چاہتے ہو۔ ہندستان سے یا پاکستان سے ؟اس معاملے میں راے دینا بالکل جائز ہے اور اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ۔ لہٰذا جن جن علاقوں میں استصوابِ راے کیا جارہا ہے وہاں کے ارکانِ جماعت اسلامی کو اجازت ہے کہ اس میں راے دیں ۔
رہا یہ سوال کہ کس چیز کے حق میں راے دیں ، تو اس معاملے میں جماعت کی طرف سے کوئی پابندی نہیں عائد کی جاسکتی، کیوں کہ جماعت اپنے ارکان کو صرف ان اُمور میں پابند کرتی ہے جو تحریک اسلامی کے اُصول اور مقصد سے تعلق رکھتے ہیں ،اور یہ معاملہ نہ اُصولی ہے نہ مقصدی۔ اس لیے ارکانِ جماعت کو اختیار ہے کہ وہ اپنی صواب دید کے مطابق جو راے چاہیں دے دیں ۔البتہ شخصی حیثیت سے میں کہہ سکتا ہوں کہ اگر میں خود صوبۂ سرحد کا رہنے والا ہوتا تو استصوابِ راے میں میرا ووٹ پاکستان کے حق میں پڑتا۔اس لیے کہ جب ہندستان کی تقسیم ہندو اور مسلم قومیت کی بنیاد پر ہورہی ہے تولامحالہ ہر اُس علاقے کو جہاں مسلمان قوم کی اکثریت ہو،اس تقسیم میں مسلم قومیت ہی کے علاقے کے ساتھ شامل ہونا چاہیے۔
پاکستان کے حق میں ووٹ دینالازماً اس نظامِ حکومت کے حق میں ووٹ دینے کا ہم معنی نہیں ہے جو آئندہ یہاں قائم ہونے والا ہے۔وہ نظام اگر فی الواقع اسلامی ہو، جیسا کہ وعدہ کیا جاتارہا ہے، تو ہم دل وجان سے اس کے حامی ہوں گے، اور اگر وہ غیر اسلامی نظام ہوا تو ہم اسے تبدیل کرکے اسلامی اُصولوں پر ڈھالنے کی جدوجہد اسی طرح کرتے رہیں گے جس طرح موجودہ نظام میں کررہے ہیں ۔ (سہ روزہ کوثر،مؤرخہ۵جولائی۱۹۴۷ء)