( ۲) فروری ۱۹۷۱ء کے رسائل ومسائل’جوان عورتوں کے لیے عیدگاہ جانا مناسب نہیں ‘ میں آپ نے لکھا ہے ’’یہی وجہ ہے کہ آپؐ نے حائضہ عورتوں کو بھی عیدگاہ جانے کا حکم دیا تھا۔‘‘ آپ نے یہ نہیں لکھا کہ پھر ان عورتوں کو کس غرض سے عیدگاہ جانے کا حکم دیاگیا تھا؟ مہربانی کرکے اسے واضح کیجیے۔ پھر آپ نے لکھا ہے’’یہاں تک کہ حضرت عائشہؓ کو کہنا پڑاتھا۔‘‘ اس سے تو معلوم ہوتاہے کہ اس وقت عورتیں مسجد جاکر جماعت سے نماز ادا کرتی تھیں۔ تو پھر اس کی بنیادکیا تھی؟ زندگی کےعام قاریوں کے لیے یہ دونوں باتیں صاف ہوجائیں توبہترہے۔
جواب
آپ کے دونوں سوالوں کا جواب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ خیرالقرون یعنی بہترین زمانہ تھا۔ مسلمان مرد اور عورتیں دونوں ہی حضورؐ کے مطیع وفرماں بردار تھے۔ ہرطرف نیکی، تقویٰ، طہارت اور پاکیزگی کی فضا چھائی ہوئی تھی، نہ مردتاک جھانک کرتے تھے اور نہ عورتیں زیب وزینت کے ساتھ باہر نکل کر مردوں کو اپنی سج دھج اورچٹک مٹک دکھاتی تھیں۔ آپ نے عورتوں کو حکم دیا تھا کہ وہ خوشبولگاکر مسجد نہ آئیں اور کسی عورت کی مجال نہ تھی کہ اس کی خلاف ورزی کرے۔ یہی وجہ ہے کہ حضورؐ نے عورتوں کو نماز باجماعت میں شرکت کے لیے مسجد کی حاضری سے منع نہیں فرمایا۔
حائضہ عورتوں کو عیدگاہ جانے کا حکم آپ نے اس لیے دیاتھا کہ وہ بھی مردوں کی جماعت میں شریک ہوکر مجموعی تعداد میں اضافہ اور اسلامی شوکت کا مشاہدہ کریں۔ عیدین کے موقع پران کی شرکت سے تکثیر جماعت کا مقصد بھی پورا ہوتاتھا اوراسلامی شوکت کودیکھ کر عورتیں مطمئن اور خوش بھی ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ دشمنان اسلام پر ایک مرعوب کن اثر بھی پڑتاتھا، بہترین اسلامی حکومت قائم تھی اور فتنے کا اندیشہ نہ تھا۔جس حدیث میں عورتوں کے عیدگاہ جانے کا ذکر ہے اس کا ایک ٹکڑا یہ ہے فیشھد ن جماعۃ المسلمین اس جملے کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمانوں کی جماعت میں حاضر رہ کر اسلامی شوکت کامشاہدہ اور عیدین کی تکبیرات میں شریک ہوکر اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا اعتراف اور اقرارکریں۔
ایک حدیث سے صاف طورپر یہ معلوم ہوتاہے کہ حضورؐ نے عورتوں کو عیدگاہ جانے کا حکم مدینہ تشریف لانے کے بعد بالکل ابتدائی دور میں دیا تھا۔ میں اس حدیث کا ترجمہ یہاں پیش کرتاہوں
’’حضرت ام عطیہؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپؐ نے انصار کی عورتوں کو ایک گھر میں اکٹھاہونے کا حکم دیا۔ اس کے بعد ہمارے پاس حضرت عمر بن الخطابؓ کو بھیجا۔وہ آکر دروازے پر کھڑے ہوئے اور ہمیں سلام کیا۔ ہم نے ان کے سلام کا جواب دیا۔ اس کے بعد انھوں نے کہا کہ میں تم لوگوں کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد بن کر آیا ہوں۔ پھر انھوں نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عیدین میں حائضہ عورتوں اور غیرشادی شدہ نوجوان لڑکیوں کو بھی عیدگاہ لے جائیں اور یہ حکم بھی پہنچایا کہ ہم عورتوں پر جمعہ فرض نہیں ہے اور ہمیں جنازے کے ساتھ جانے سے منع فرمایا۔‘‘ (ابودائود)
بالکل ابتدائی دور میں حائضہ عورتوں اورنوجوان لڑکیوں تک کو عیدگاہ جانے کا حکم دینے کی غرض وہی تھی جس کا ذکر اوپر کیاگیاہے۔
عورتوں کو مسجد آنے سے روک دینے کی جوبات حضرت عائشہؓ نے فرمائی تھی اس کی وجہ میں نے اپنے جواب میں لکھ دی ہے۔ یعنی یہ کہ جن شرائط کے ساتھ حضورؐ نے انھیں مسجد آنے کی اجازت دی تھی وہ اس کی خلاف ورزی کرنے لگی تھیں۔ جیسے جیسے زمانے کی فتنہ انگیزی بڑھتی چلی گئی اور خود مسلمان عورتوں کی اطاعت خدا او ر رسولؐ میں کمی آتی گئی ان کے لیے مسجد جاکر نماز باجماعت ادا کرنے پرپابندی لگتی گئی۔ کھلی بات ہے کہ کسی مشروط اجازت کی شرط اگر غائب ہوجاتی ہے تو وہ اجازت بھی ختم ہوجاتی ہے۔
(اپریل۱۹۷۱ء، ج۴۶، ش۴)