حبش پر مسلمانوں کے حملہ آور نہ ہونے کی وجہ

مصر کے مفتوح ہوجانے کے بعد خلافت راشدہ کے زمانے میں حبش کی جانب فتوحات کے لیے قدم کیوں نہ بڑھایا گیا؟ کیا محض اس وجہ سے کہ وہاں کے ایک سابق حکمراں نے مسلمانوں کو پناہ دی تھی اور ایک سابق بادشاہ مسلمان ہوگیا تھا؟
جواب

اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہمارے پاس مکمل مواد موجود نہیں ہے۔البتہ ابودائود اور مسند امام احمد میں نبیﷺ کا ایک ارشاد ملتا ہے جس میں حبش کے متعلق آپﷺ نے یہ پالیسی متعین فرما دی تھی کہ دَعُوا الْحَبَشَةَ مَا وَدَعُوكُمْ۔۔۔({ FR 1053 }) دوسری روایت کے الفاظ ہیں : اتْرُكُوا الْحَبَشَةَ مَا تَرَكُوكُمْ({ FR 1054 }) یعنی ’’حبش کے لوگ جب تک تمھیں چھوڑے رکھیں ،تم بھی انھیں چھوڑے رکھو۔‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ اسی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے خلفاے راشدین کے دور میں حبش کی طرف کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔اس ارشاد میں جو مصلحت تھی، ممکن ہے کہ اس میں کسی حد تک اس بات کا لحاظ بھی ہو کہ اہلِ حبش نے مسلمانوں کو ان کی مصیبت کے وقت جو پناہ دی تھی ،اس کی رعایت کی جائے اور اپنی طرف سے ان کے خلاف پہل نہ کی جائے تاکہ دنیا کو کبھی یہ غلط فہمی لاحق نہ ہوسکے کہ مسلمان ایک احسان فراموش جماعت ہیں ۔ لیکن اس کی ایک اوروجہ بھی نظر آتی ہے۔وہ یہ کہ حبش کی جغرافی پوزیشن اور اس کی سابق تاریخ کو دیکھتے ہوئے غالباً نبی ﷺ نے یہ خیال فرمایا ہوگا کہ اسلام کے جغرافی مرکز، یعنی حجاز کے تحفظ کے لیے حبش سے تعلقات کا درست رہنا ضروری ہے۔اسی مصلحت سے آپؐ نے یہ ہدایت فرمائی ہوگی کہ جہاں تک اسلام کی دعوت کا تعلق ہے ،وہ پُرامن طریقے سے اس ملک میں پھیلائی جاتی رہے،لیکن جنگ سے حتی الامکان پرہیز کیا جائے۔ (ترجمان القرآن ، جولائی اگست ۱۹۴۳ء)