حدیث اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ…کی علمی تحقیق

میرے ایک دوست نے جو دینی شغف رکھتے ہیں ،حال ہی میں شیعیت اختیا ر کرلی ہے۔ انھوں نے اہل سنت کے مسلک پر چند اعتراضات کیے ہیں جو درج ذیل ہیں ۔ اُمید ہے کہ آپ ان کے تشفی بخش جوابات دے کر ممنون فرمائیں گے: (۱)نبی اکرم ﷺ کی حدیث اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بَابُھَا، فَمَنْ اَ رَادَ الْمَدِیْنَۃَ فَلْیَاْتِ الْبَابَ کامفہوم کیا ہے؟ (۲) کیا اس حدیث سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ علم —دینی علم — کے حصول کا واحد اور سب سے معتبر ذریعہ صرف حضرت علی ؓ کی ذات گرامی ہے اور اس کے سوا جن دوسرے ذرائع سے علم دین حاصل کیا گیاہے، وہ ناقص ہیں اور اس وجہ سے ان کی دین کے اندر کوئی اہمیت نہیں ؟
جواب

احادیث سے استناد کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے روایت کے اعتبار سے دیکھا جائے کہ وہ کہاں تک قابل اعتمادذرائع سے مروی ہوئی ہیں ۔پھر اُ ن کے معنی پر غور کیا جائے اور یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ بشرط صحت، ان کا صحیح مدعا کیا ہوسکتاہے۔کسی حدیث کا کوئی ایسا مفہوم لے لینا جو حضورﷺ کے دوسرے بہت سے ارشادات سے ٹکراتا ہو، یا جس سے بہت سی قباحتیں لازم آتی ہوں ،کسی طرح درست نہیں ہوسکتا۔اس کے بجاے اس کا اگر کوئی ایسا مفہوم ہوسکتا ہو جو آں حضورﷺ کے دوسرے ارشادات سے مطابقت بھی رکھتا ہو اور ہر قباحت سے بھی خالی ہو،تو ایک ذی فہم آدمی کے لیے وہی قابل قبول ہونا چاہیے۔
اس قاعدے کو نگاہ میں رکھ کر پہلے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ حدیث اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بَابُھَا کا بلحاظ روایت کیا مقام ہے۔صحاح میں سے اس کو صرف ترمذی نے لیا ہے اور اس میں انا مدینۃ العلمکے بجاے یہ الفاظ ہیں : اَنَا دَارُ الْحِکْمَۃِ وَعَلیٌ بَابُھَا({ FR 1887 })’’میں حکمت کا گھر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ ہے۔‘‘ راوی اس کے خود حضرت علیؓ ہیں ۔امام ترمذیؒ اس کو نقل کرنے کے بعد اس کی روایتی حیثیت پر جو تبصرہ کرتے ہیں ،وہ یہ ہے:
هٰذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مُنْكَرٌ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ شَرِيكٍ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ الصُّنَابِحِيِّ، وَلَا نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ وَاحِدٍ مِنْ الثِّقَاتِ عَنْ شَرِيكٍ ({ FR 1888 })
’’یہ حدیث غریب اور منکر ہے۔بعض راویوں نے اسے صرف شریک (تابعی) سے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں صنابحی کا ذکر نہیں کیا ہے۔ہم نہیں جانتے کہ شریک کے سوا ثقات میں سے کسی نے بھی اس کو روایت کیا ہو۔‘‘
حدیث غریب کی تعریف
غریب، اصطلاح علم حدیث میں اس روایت کو کہتے ہیں جس کا مدار سند کے کسی مرحلے میں صرف ایک راوی پر رہ جائے۔ اور منکر اس روایت کو کہتے ہیں جونری غریب ہی نہ ہو بلکہ اس کا راوی بھی ضعیف ہو۔ اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ سند کے لحاظ سے ترمذی کی اس روایت کا پایہ کیا ہے اور اس پر سارے دین کی بِنا رکھ دینا کہاں تک درست ہوسکتاہے۔
ترمذی کے بعداس مضمون کی روایات کا سارا دارومدار حاکم کی مستدرک پر رہ جاتا ہے جو بجاے خود ہی حدیث کی معتبر کتابوں میں شمار نہیں ہوتی۔اس میں وہ ابن عباسؓ اور جابر بن عبداﷲؓ سے دو روایتیں مختلف الفاظ میں نقل کرتے ہیں ۔ ابن عباسؓ والی روایت کے الفاظ ہیں :
أَنَا مَدِيْنَةُ الْعِلْمِ وَعَلِيٌّ بَابُهَا، فَمَنْ أَرَادَ الْمَدِيْنَةَ فَلْيَأْتِ الْبَابَ({ FR 1889 })
’’ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے ۔پس جو شخص شہر میں آنا چاہے وہ اس کے دروازے سے آئے۔‘‘
اور جابر بن عبداﷲؓ والی روایت میں آخری فقرہ یہ ہے:
فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ فَلْيَأْتِ الْبَابَ({ FR 2030 })
’’جو علم حاصل کرنا چاہے،اسے دروازے پر آنا چاہیے۔‘‘
حاکم نے ان دونوں حدیثوں کے صحیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ لیکن علم حدیث کے بڑے بڑے ناقدین کی راے میں نہ صرف یہ دونوں ، بلکہ اس مضمون کی ساری روایات ساقط الاعتبار ہیں ۔ ابن عباسؓوالی روایت کے متعلق حافظ ذہبیؒ کہتے ہیں کہ صحیح ہونا تو درکنار، یہ تو موضوع ہے،({ FR 2156 }) اور جابر بن عبداﷲؓ والی روایت پر وہ یہ راے دیتے ہیں :
اَلْعَجَبُ مِنَ الْحَاکِمِ وَجُرأَتِہٖ فِی تَصْحِیْحِہِ ھٰذا وَ أَمْثَالِہٖ مِنَ الْبَوَاطِیْلِ وَأحْمَدْ ھٰذا دَجَّالٌ کَذَّابٌ۔({ FR 2157 })
’’حاکم پر سخت تعجب ہے کہ کس جرأت کے ساتھ وہ اس روایت اور ایسی ہی دوسری باطل روایتوں کو صحیح کہہ دیتا ہے۔ یہ احمد( یعنی احمد بن عبداﷲ بن یزید الحرانی جس کی سند سے یہ روایت حاکم نے نقل کی ہے) دجّال اور سخت جھوٹا ہے۔‘‘
یحییٰ بن معین اس حدیث کے متعلق کہتے ہیں کہ لَاَ اصْلَ لَہٗ ’’اس کی کوئی اصلیت نہیں ہے۔‘‘ امام بخاریؒ کی راے ہے کہ إنَّہُ مُنْکَرٌ وَلَیْسَ لَہٗ وَجْہٌ صَحِیْحٌ ’’یہ منکر روایت ہے اور اس کی نقل کا کوئی طریقہ بھی صحیح نہیں ہے۔‘‘ نوویؒ او رجزریؒ اس کو موضوع کہتے ہیں ۔ ابن دقیق العید کے نزدیک بھی یہ ثابت نہیں ہے۔ ابن جوزیؒ نے مفصل بحث کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ انا مدینۃ العلم والی روایت جتنے طریقوں سے بھی مروی ہوئی ہے ،سب کے سب موضوع ہیں ۔({ FR 2031 })
لائق غور بات یہ ہے کہ جس حدیث کا سند کے اعتبار سے یہ حال ہو،اس پر اتنے بڑے فیصلے کی بِنا رکھ دینا کہاں تک درست ہوسکتا ہے کہ ہم رسول اﷲ ﷺ سے دین کے احکام صرف حضرت علیؓ کے واسطے سے حاصل کریں گے اور دوسرے صحابہ کو حصول علم کا ذریعہ سرے سے مانیں گے ہی نہیں ؟ظاہر ہے کہ یہ کوئی معمولی فیصلہ نہیں ہے۔قرآن مجید کے بعد ہمارے لیے ہدایت وراہ نمائی کا سرچشمہ اگر کوئی ہے تو وہ رسول اﷲ ﷺ کا اسوہ حسنہ ہے، اورصحابہ کرامؓ وہ ذریعہ ہیں جن کے واسطے سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ حضورﷺ نے زندگی کے مختلف معاملات میں کیا راہ نمائی فرمائی ہے۔ اب اگر ہم اس حدیث پر اعتماد کرکے اس علم کے لیے صرف ایک سیّدنا علی ابن ابی طالبؓ پر انحصار کر لیں ، تو لامحالہ ہمیں علم کے اس بہت بڑے حصے سے محروم ہونا پڑے گا جو دوسرے صحابہ کے ذریعے سے منقول ہوا ہے۔ کیا عقل یہ مطالبہ نہیں کرتی کہ اتنا بڑا فیصلہ کرنے کے لیے حضورﷺکا ارشاد ہم کو اس حدیث کی بہ نسبت بہت زیادہ قوی اور مستند ومعتبر ذریعے سے پہنچنا چاہیے تھا؟ بلکہ اسے تو بہت سی صحیح اور مضبوط سندوں سے مروی ہونا چاہیے تھا، یہاں تک کہ اس کی صحت میں کسی شک کی گنجائش باقی نہ رہتی۔
اب دیکھیے کہ اگر اس حدیث کا وہی مفہوم لیا جائے جو اس کے ظاہر الفاظ سے مترشح ہوتا ہے تو وہ نبیؐ کے بکثرت ارشادات سے اور آپؐ کی زندگی بھر کے عمل سے کس طرح ٹکراتا ہے۔ حضور ﷺ نے بہت سے صحابہؓ کو اپنی حیات طیبہ میں فوج کا ا فسر بنا کر مہمات پر بھیجا۔ مملکت اسلامیہ کے مختلف علاقوں پر عامل مقرر کیا۔ تحصیل صدقات کے منصب پر مامور کیا۔ نماز پڑھانے کی خدمت سپرد کی۔ تعلیم اور تبلیغ کے لیے اطراف ونواحی میں روانہ کیا۔ یہ تاریخی حقائق ہیں جن سے انکار کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب خدمات کیا علم دین کے بغیر ہی انجام دی جاتی تھیں ؟یا یہ سارے صحابہ رسول اﷲ ﷺ کے نہیں بلکہ حضرت علیؓ کے شاگرد تھے؟اگر یہ دونوں باتیں غلط ہیں تو پھر صحیح بات صرف یہی ہوسکتی ہے کہ ان صحابہؓ نے مدینۃ العلم یا دارالحکمۃسے براہِ راست علم وحکمت کی تعلیم حاصل کی تھی اور یہ سب بھی حضرت علیؓ کی طرح شہر علم اور دار حکمت کے دروازے تھے۔
پھر جس شخص نے بھی سیرت پاک کا کبھی مطالعہ کیا ہے،وہ جانتا ہے کہ نبوت کے منصب پر سرفراز ہونے کے بعد سے حیات دنیوی کی آخری ساعت تک حضورؐ براہِ راست خود دین کی تعلیم و تبلیغ فرماتے رہے۔ اور جو لوگ بھی دین کے متعلق کچھ پوچھنا چاہتے تھے وہ بلا واسطہ حضور ﷺ ہی سے پوچھتے اور جواب حاصل کرتے رہے۔ کیا کبھی ایسا ہوا کہ حضور ﷺ کو خدا کی طرف سے جو احکام پہنچے ہوں ، وہ آپؐ نے صرف حضرت علیؓ کو بتائے ہوں اور دنیا تک انھیں پہنچانے کی خدمت تنہا حضرت علیؓ نے انجام دی ہو؟ یا کوئی شخص حضورؐ سے دین کی کوئی بات پوچھنے کے لیے حاضر ہوا ہو اور آپؐ نے فرمایا ہوکہ علیؓ سے جا کر پوچھو،یا علیؓ کے توسط سے میرے پاس آئو؟ اگر نبوت کی۲۳ سالہ زندگی میں کبھی ایسا نہیں ہوا تو آخر اس قول کا کیا مطلب ہوسکتاہے کہ ’’مدینۃ العلم‘‘کا صرف ایک دروازہ ہے اور وہ حضرت علیؓ ہیں ؟
خود حاکم جنھوں نے اس حدیث کو بڑے زور سے صحیح قرار دیا ہے،اپنی مستدرک میں ہزاروں حدیثیں دوسرے صحابہؓ سے نقل کرتے ہیں ،اور ان میں بکثرت احادیث ایسی ہیں جن کی ہم معنی کوئی حدیث حضرت علیؓ سے ان کی کتاب میں منقول نہیں ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر حاکم کے نزدیک یہ حدیث صحیح تھی اور مدینۃ العلم تک پہنچنے کا دروازہ صرف ایک ہی تھا تو یہ دوسرے بہت سے دروازے کہاں سے پیدا ہوگئے اور وہ کیوں ان پر گئے؟
حضرت علی ؓ کا اپنا دعویٰ بھی یہ نہ تھا کہ انھیں حضورﷺ نے کوئی ایسا علم دیا تھا جو دوسروں کو نہ دیا ہو۔ بخاری، مسلم اور مسند احمد میں صحیح سندوں کے ساتھ یہ روایت آئی ہے کہ حضرت علیؓ نے بار بار برسر عام ان لوگوں کے خیال کی تردید فرمائی تھی جو ایسا سمجھتے تھے۔ آپؓ نے اپنی تلوار کے پر تلے سے ایک کاغذ کا ٹکڑا نکال کر لوگوں کو دکھادیا تھا کہ اس کے سوا کوئی خاص چیز ایسی نہیں ہے جو میں نے حضورؐ سے سن کر ثبت کی ہو۔ اور اس پرزے میں صرف چار پانچ فقہی احکام تھے۔مسند احمد میں تیرہ مختلف سندوں سے حضرت علیؓ کا یہ ارشاد منقول ہوا ہے۔ان سب روایتوں کو جمع کرنے سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ حضرت ممدوح نے متعدد مواقع پر عوام کی اس غلط فہمی کو خود رفع فرمایا تھا کہ نبیﷺ اپنے داماد کو راز میں دین کے کچھ اسرار تعلیم فرما گئے ہیں جو دوسروں کو آپؐ نے نہیں بتائے۔بہت سے لوگوں نے آں جناب کی اپنی زبان سے اس باطل خیال کی تردید سنی اور یہ تردید اتنی مختلف سندوں سے محدثین کو پہنچی کہ اس کی صحت میں مشکل ہی سے شک کیا جاسکتا ہے۔({ FR 1842 })
اس کے بعد جب ہم ان بہت سی صحیح احادیث کو دیکھتے ہیں جو دوسرے صحابہ ؓ کے متعلق نبیﷺ نے ارشاد فرمائی ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ حدیث ان سب کے خلاف ہے۔ مسند احمد اور ترمذی کی روایت ہے کہ حضورﷺ نے زید بن ثابتؓ کے متعلق فرمایا: اَفْرَضُھُمْ({ FR 2126 }) یعنی صحابہ میں علم میراث کے وہ سب سے بڑے ماہر ہیں ۔ معاذ بن جبلؓ کے متعلق فرمایا: اَعْلَمُھُمْ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ۔({ FR 2127 }) ’’حلال وحرام کو وہ سب سے زیادہ جانتے ہیں ۔‘‘ اُبی بن کعبؓ کے متعلق فرمایا: اَقْرَؤُھُم({ FR 2128 })’’قرآن کے سب سے بڑے قاری وہ ہیں ۔‘‘ مسند احمد میں خود حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا:
لَوْ كُنْتُ مُؤَمِّرًا أَحَدًا مِنْ غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنْهُمْ لَأَمَّرْتُ عَلَيْهِمْ ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ({ FR 1891 })
’’اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو بلا مشورہ امیر بنانے والا ہوتا تو ابن ام عبد( عبداﷲ بن مسعودؓ) کو بناتا۔‘‘
ترمذی میں حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺنے فرمایا:
إِنِّي لَا أَدْ رِي مَا بَقَائِي فِيكُمْ فَاقْتَدُ وا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي وَأَشَارَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ({ FR 1892 })
’’میں نہیں جانتا کہ میں کب تک تمھارے درمیان رہوں گا۔ تم میرے بعد ان دو آدمیوں کی پیروی کرنا،ابو بکر اور عمر۔‘‘
حضرت ابو سعید خدریؓ کی روایت ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا:
مَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا لَهُ وَزِيرَانِ مِنْ أَهْلِ السَّمَاءِ وَوَزِيرَانِ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ، فَأَمَّا وَزِيرَايَ مِنْ أَهْلِ السَّمَاءِ فَجِبْرِيلُ وَمِيكَائِيلُ، وَأَمَّا وَزِيرَايَ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ فَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ({ FR 1893 })
’’ہر نبی کے لیے دو وزیر آسمان والوں میں سے اور دو وزیر زمین والوں میں سے ہوئے ہیں ۔ میرے آسمانی وزیر جبریل و میکائیل ہیں اور زمینی وزیر ابو بکرؓ اور عمر ؓ۔‘‘
ترمذی ہی میں عقبہؓ بن عامر کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:
لَوْكَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَكَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ({ FR 1894 })
’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمربن خطاب ہوتا۔‘‘
بخاری ومسلم میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ روایت کرتے ہیں کہ سرکار نے حضرت عمرؓ کو خطاب کرکے فرمایا:
يَا ابْنَ الْخَطَّابِ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا لَقِيَكَ الشَّيْطَانُ سَالِكًا فَجًّا قَطُّ إِلَّا سَلَكَ فَجًّا غَيْرَ فَجِّكَ({ FR 1895 })
’’خطاب کے بیٹے!قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے،جس راستے پر بھی شیطان کی تجھ سے مڈبھیڑ ہوجاتی ہے، اس کو چھوڑ کر وہ کسی ایسے راستے پر چلا جاتا ہے جہاں تو اس کے سامنے نہ ہو۔‘‘
ابو دائود میں حضرت ابو ذرؓنبیؐ کا یہ ارشاد روایت کرتے ہیں کہ
اِنَّ اللّٰہَ وَضَعَ الْحَقَّ عَلٰی لِسَانِ عُمَرَ یَقُوْلُ بہٖ۔({ FR 1896 })
’’اﷲ نے حق عمر کی زبان پر رکھ دیا ہے، اسی کے مطابق وہ بات کرتاہے۔‘‘
بخاری ومسلم میں ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز حضور ﷺنے فرمایا:
رات میں نے خواب میں دیکھا کہ لوگ میرے سامنے پیش کیے جارہے ہیں اور وہ چھوٹے بڑے کُرتے پہنے ہوئے ہیں ۔ کسی کا کرتا سینے تک ہے، کسی کا زیادہ نیچے تک، اور عمر میرے سامنے پیش کیے گئے تو ان کا کرتا زمین پر گھسٹ رہا تھا۔ حاضرین نے پوچھا کہ پھر حضور ﷺ نے اس کی کیا تأویل فرمائی؟ ارشاد ہوا کہ کُرتے سے مراد دین ہے۔({ FR 1897 })
یہ روایات تو دوسرے صحابہ کی ہیں ۔ خود حضرت علیؓ سے جو نہایت صحیح اور معتبر روایتیں کتب حدیث میں وار د ہوئی ہیں وہ ملاحظہ ہوں :
بخاری میں حضرت علیؓ کے صاحب زادے محمد بن حنفیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد ماجد سے پوچھا: نبیﷺ کے بعد سب سے بہتر کون ہے؟ فرمایا :ابوبکرؓ۔میں نے عرض کیا کہ پھر کون؟ فرمایا: عمرؓ۔ اس کے بعد مجھے اندیشہ ہوا کہ میں پھر یہی سوال کروں گا تو کہہ دیں گے، عثمانؓ۔ اس لیے میں نے پوچھا: ان کے بعد کیا آپ ہیں ؟ فرمایا : ’’ما اَنَا اِلاَّ رَجَلٌ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ({ FR 1898 }) ’’میں کچھ نہیں ہوں مگر بس مسلمانوں میں سے ایک آدمی۔‘‘
یہ جواب ٹھیک اس بلند اور پاکیزہ سیرت کے مطابق ہے جو سیّدنا علیؓ کی تھی۔ ان جیسے عالی ظرف انسان کا یہی مقام تھا کہ اپنے مرتبے کی فضیلت بیان کرنے سے اجتناب فرماتے اور اپنی ذات کو عا م مسلمانوں کی صف ہی میں رکھتے۔
مسند احمد میں امام حسن بن علی رضی اللّٰہ عنہما کی روایت ہے (اور یہ روایت ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی ہے) کہ ان کے والد سیّدنا علیؓ نے بیان کیا:
كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقَالَ: يَا عَلِيُّ، هَذَانِ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَشَبَابِهَا بَعْدَ النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ۔ ({ FR 1899 })
’’میں نبیؐ کے پاس بیٹھا تھا، اتنے میں ابوبکر ؓ وعمرؓ سامنے سے آتے نظر آئے۔حضور ﷺ نے مجھ سے فرمایا: اے علیؓ! یہ دونوں پیغمبروں کے بعد تمام سن رسیدہ اور جوان اہل جنت کے سردار ہیں ۔‘‘
ایک اور حدیث جو مسند احمد، بزار اور طبرانی میں حضرت علیؓ سے بسند صحیح منقول ہوئی ہے،یہ ہے کہ رسول اﷲ ﷺ سے پوچھا گیا کہ حضور کے بعد کون امیر ہوگا؟آپؐ نے جواب میں فرمایا:
إِنْ تُؤَمِّرُوا أَبَا بَكْرٍ(رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ) تَجِدُوهُ أَمِينًا زَاهِدًا فِي الدُّنْيَا رَاغِبًا فِي الْآخِرَةِ، وَإِنْ تُؤَمِّرُوا عُمَرَ( رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ) تَجِدُوهُ قَوِيًّا أَمِينًا لَا يَخَافُ فِي اللَّهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ، وَإِنْ تُؤَمِّرُوا عَلِيًّا( رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ) وَلَا أُرَاكُمْ فَاعِلِينَ تَجِدُوهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا يَأْخُذُ بِكُمْ الطَّرِيقَ الْمُسْتَقِيمَ({ FR 2142 })
’’اگر تم ابوبکر کو امیر بنائو گے تو اسے امین، دنیا کے معاملے میں زاہد اور آخرت کی طرف راغب پائو گے۔ اور اگر عمر کو امیر بنائو گے تو اسے طاقت ور، امین اور اﷲ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی پروا نہ کرنے والا پائو گے۔ اور اگر علی کو امیر بنائو گے، اور میں نہیں سمجھتا کہ تم ایسا کرو گے، تو اسے ہادی ومہدی پائو گے، جو تم کو سیدھے راستے پر چلائے گا۔‘‘
اسی مسند احمد میں ۲۶ صحیح سندوں سے یہ واقعہ بیان ہوا ہے کہ حضرت علیؓ نے ایک تقریر میں برسر منبر صاف صاف فرمایا کہ نبیؐ کے بعد امت کے بہترین آدمی ابوبکر ؓ ہیں اور ان کے بعد عمرؓ۔ ان روایات میں سے اکثر کے تمام راوی ثقہ ہیں اور کسی پر کوئی جرح نہیں ہے۔ ۲۳ روایتیں فنِ حدیث کے لحاظ سے صحیح اور دوحسن ہیں ۔ صرف ایک ضعیف ہے۔ان میں سےبارہ کے راوی حضرت ابو حجیفہؓ صحابی ہیں جو حضرت علیؓ کے دور حکومت میں پولیس اور بیت المال کے افسر تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے دوران تقریر میں سوال کیا کہ جانتے ہو،نبیؐ کے بعداس اُمت کا سب سے بہتر انسان کون ہے؟میں نے عرض کیا: امیرالمؤمنین وہ آپ ہیں ۔ فرمایا:نہیں حضور ﷺ کے بعد اس اُمت کے بہترین انسان ابوبکرؓ ہیں اور ان کے بعد عمرؓ۔({ FR 2158 })
ایک اور راوی عبد خیر ہمدانی ہیں جن تکتیرہ روایتوں کا سلسلہ پہنچتا ہے ۔اُن سے جب پوچھا گیا کہ آپ نے حضرت علیؓ کا یہ ارشاد خود اُن کی زبان سے سنا ہے ؟تو انھوں نے کہا: میرے کان بہرے ہوجائیں اگر میں نے اس کو خود اُن کی زبان سے نہ سنا ہو۔({ FR 2159 })
ایک اور راوی ابراہیم نخعیؒ ہیں جو کہتے ہیں کہ علقمہ نے کوفے کی مسجد کے منبر پر ہاتھ مار کر کہا کہ اس منبر پر میں نے حضرت علیؓ کوخطبے میں یہ فرماتے سنا ہے کہ
خَیْرُ النَّاسِ کَانَ بَعْدَ رَسُولِ اللہِﷺ أَبُوبَکْرٍؓ ثُمَّ عُمَرُؓ({ FR 1798 })
بیہقی اور مسند احمد میں حضرت علیؓ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ:
وَمَا نَبْعَدُ اَنّ السَّکِیْنَۃَ تَنْطِقُ عَلٰی لِسانِ عُمَرَ رَضیِ اللّٰہُ عَنْہُ({ FR 1901 })
’’ہم لوگ اس بات کو بعید نہیں سمجھتے تھے کہ سکینت عمرؓ کی زبان سے بولتی ہو۔‘‘
بخاری ومسلم اور مسند احمد میں ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ جب حضرت عمرؓ کا انتقال ہوگیا اور آپؓ کو غسل دینے کے لیے تختے پر لا کر رکھا گیا تو چاروں طرف لوگ کھڑے ہوئے ان کے حق میں دُعاے خیر کررہے تھے۔ اتنے میں ایک شخص پیچھے سے میرے شانے پر کہنی ٹیک کر جھکا اور کہنے لگا: ’’اﷲ تم پر رحمت فرمائے،تمھارے سوا کوئی ایسا نہیں ہے جس کے متعلق میرے دل میں یہ تمنا ہو کہ میں اس کا سانامۂ اعمال لے کر اپنے اﷲ کے حضور حاضر ہوں ۔ میں اُمیدرکھتا ہوں کہ اﷲ تم کو ضرور اپنے دونوں رفیقوں (یعنی رسول اکرم ﷺ اور ابوبکر صدیق ؓ ) کے ساتھ ہی رکھے گا۔ کیوں کہ میں اکثر حضورﷺ کو یوں فرماتے سنا کرتا تھا کہ فلاں جگہ میں اور ابو بکرؓ وعمرؓ تھے۔ فلاں کام میں نے اور ابو بکر ؓ اور عمرؓ نے کیا۔فلاں جگہ میں اورابوبکرؓ و عمرؓ گئے۔ فلاں جگہ سے میں اور ابوبکرؓ و عمرؓ نکلے۔‘‘({ FR 2160 }) ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ میں نے پلٹ کر دیکھا تو وہ علی بن ابی طالبؓ تھے۔
اب غور طلب بات یہ ہے کہ حدیث اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ اگر صحیح ہے اور وہی کچھ اس کا مطلب ہے جو اس سے لیا جاتا ہے تو آخر اتنی کثیر التعداد احادیث کے متعلق کیا کہا جائے گا جو دوسرے صحابہ کرام ؓکے متعلق اس سے بہت زیادہ قوی اور معتبر سندوں کے ساتھ وارد ہوئی ہیں ؟کس دلیل سے اس کمزور اور نہایت مشتبہ سند کی حدیث کے مقابلے میں ان سب کو جھٹلایا جائے گا؟اور اگر انھیں جھٹلایانہیں جاسکتا تو ان کی کیا ایسی تأویل کی جائے گی جس سے حضرت علیؓ مدینۃ العلم کے باب واحد بھی رہیں اور پھر دوسرے صحابہؓ کے متعلق نبیؐ کے اور خود حضرت علیؓ کے یہ ارشادات بھی سچے قرار پائیں ؟ میں عرض کرتا ہوں کہ اوّل تو سیدنا حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ کی شان میں صحیح اور معتبر حدیثوں کی کمی نہیں ہے کہ خواہ مخواہ ایک ایسی حدیث ان کے حق میں لانے کی کوشش کی جائے جو سند کے لحاظ سے ضعیف کے مرتبے سے بھی گری ہوئی ہے ۔تاہم اگر کسی کو اس کی صحت پر اصرار ہی ہو تو اس کا یہ حصہ بالکل غلط ہے کہ’’جس کو اس شہر میں آنا ہو،وہ اس دروازے سے آئے۔‘‘کیوں کہ یہ حضورﷺکے دوسرے بہت سے ارشادات اور آپؐ کے زندگی بھر کے عمل کے خلاف ہے،اور حضرت علیؓ کے اپنے ارشادات سے بھی ٹکراتا ہے۔زیادہ سے زیادہ اس کے پہلے حصے یعنی اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَعَلَّیِ باُبھَا کو صحیح مانا جاسکتا ہے، اور وہ بھی اس معنی میں نہیں کہ اس شہر کا صرف ایک ہی دروازہ ہے اور وہ علیؓ ہے۔بلکہ اس معنی میں کہ اس شہر کے دروازوں میں سے ایک دروازہ علیؓ ہے، یہ معنی حق بھی ہیں اور حضورﷺ کے دوسرے اقوال اور آپؐ کے عمل سے بھی مطابقت رکھتے ہیں ۔
(ترجمان القرآن ، اگست۱۹۵۷ء)