حضرت آدم ؈ کی تخلیق اور تربیت

قرآن مجید نے حضرت آدم ؈ کا ذکر جس انداز سے کیا ہے،وہ اس حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ نوع بشری کے یہ سب سے پہلے رکن بڑے ہی مہذب تھے۔اس سلسلے میں جو چیز میرے ذہن میں خلش پیدا کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس متمدن انسان کی صلب سے وحشی قبائل آخر کس طرح پیدا ہو گئے۔ تاریخ کے اوراق پر نگاہ ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ یہ قبائل اخلاق اور انسانیت کی بالکل بنیادی اقدار تک سے ناآشنا ہیں ۔ نفسیات بھی اس امر کی تائید کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ وحشی انسانوں اور حیوانوں کے مابین کوئی بہت زیادہ فرق نہیں سواے اس ایک فرق کے کہ انسان نے اپنی غور وفکر کی قوتوں کو کافی حد تک ترقی دے دی ہے۔ یہ چیز تو مسئلۂ ارتقا کو تقویت پہنچاتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ میری اس معاملے میں راہ نمائی فرما کر میری اس خلش کو دور کریں گے اور اس امر کی وضاحت فرمائیں گے کہ ابتدائی انسان کی تخلیق کی نوعیت کیا تھی اور اس کے جبلی قویٰ کس سطح پر تھے؟
جواب

میں حضرت آدم ؈ کو نوع انسانی کا پہلا فردسمجھتا ہوں اور میرا یہ بھی خیال ہے کہ پہلے فرد کی براہِ راست تخلیق(direct creation) کی گئی تھی،اور یہ کہ اس فرد کو پیدا کرکے یوں ہی چھوڑنہیں دیا گیا کہ خود ہاتھ پائوں مار کر فکری اور عملی تہذیب کی جانب پیش قدمی کرے،بلکہ اسے خدا وندتعالیٰ کی راہ نمائی ونگرانی میں وہ ابتدائی تربیت بھی دی گئی جو تہذیب انسانی کی داغ بیل ڈالنے کے لیے لازماً درکار تھی۔ آپ غور کریں تو خود سمجھ سکتے ہیں کہ ہر نوع کے افراد کو زندگی کا آغاز کرنے کے لیے کچھ بنیادی راہ نمائی درکار ہوتی ہے۔ حیوانات کے افراد کو یہ راہ نمائی بہت کم اور محدود پیمانے پر درکار ہوتی ہے اور وہ ہر بچۂ حیوان کو بالعموم اس کے ماں باپ یا دوسرے افراد نوع سے ملتی ہے۔ انسان کا بچہ اس سے بہت زیادہ اور بڑے پیمانے پر نگرانی وراہ نمائی کا محتاج ہوتا ہے،جو اگر نہ ملے تو وہ یا تو زندہ ہی نہیں رہ سکتا یا بچہ انسان کی حیثیت سے نشوونما نہیں پا سکتا۔ یہ ابتدائی اور ضروری راہ نمائی میرے نزدیک پہلے نوع کے ہر فرد کو اور اسی طرح نوع انسانی کے بھی اوّلین فرد کو اس کی ضرورت کے لحاظ سے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی تھی۔
یہ بات کہ انسان کبھی تہذیب سے بالکل عاری اور اپنی حالت میں پوری طرح حیوانات کی سطح پر تھا،محض ایک مفروضہ ہے جو اس دوسرے مفروضے پر قائم کیا گیا ہے کہ انسان حیوانات میں سے ترقی کرتا ہوا حالت انسانی کو پہنچا ہے۔اس وقت تک کے مشاہدات میں کوئی چیز ان دونوں مفروضات کی تائید کرنے والی ،تائید اس معنی میں کہ انھیں ثابت کردے،نہیں ملی ہے۔ اس کے برعکس قدیم ترین آثار میں بھی جہاں کہیں انسان(نہ کہ کوئی خیالی مفقود حلقہ، missing link) ملا ہے، وہیں تہذیب کے بھی نشانات ملے ہیں ، چاہے وہ کیسے ہی ابتدائی مرحلے کے ہوں ۔ خالص غیر مہذب وغیر متمدن انسان مثل حیوان، اب تک کہیں نہیں پایا گیا ہے۔ جن کو آپ غیر متمدن (savage) کہتے ہیں ، ان میں اور حیوانی زندگی کی برتر صورتوں میں اگر واقعی تقابل کیا جائے تو ایسے بنیادی فرق پائے جائیں گے کہ حیوان کی کسی اونچی سے اونچی قسم کو انسان کی کسی ادنیٰ سے ادنیٰ وحشیانہ حالت سے بھی کوئی نسبت نہ ہوگی۔
یہ دراصل ارتقا خولیا ہے جس کی وجہ سے کچھ سطحی تشابہات کو انسان وحیوان میں مماثلت کی بنیاد بنایا جاتا ہے۔بالکل ابتدائی حالت میں بھی چند چیزیں ایسی ہیں جو قطعی طور پرانسان اور حیوان میں فرق کردیتی ہیں ۔ مثلاً حیا، جس کا اظہار اعضاے جنسی کو چھپانے اور مباشرت میں اخفا سے کام لینے کی صورت میں ہوتا ہے۔ الفاظ اور اشارات کی شکل میں اظہار خیال جو حیوانات کی آوازوں سے بالکل بنیادی طور پر مختلف ہوتا ہے۔ قوت ایجاد جو حیوانات کی جبلت کے تحت لگی بندھی صنعتوں سے کلیتاً اپنی نوعیت میں بالکل ایک مختلف چیزہے۔ ارادی اور غیر ارادی افعال میں فرق کرنا اور ارادی افعال پر اخلاقی احکام لگانا جو حیوانات کی کسی بڑی سے بڑی ترقی یافتہ شکل میں بھی موجود نہیں ہے۔مذہبی حس جو حیوانات میں مفقود ہے مگر انسانوں کا کوئی گروہ انتہائی وحشت کی حالت میں بھی اس سے خالی نہیں پایا گیا ہے۔ (ترجمان القرآن، نومبر ۱۹۵۹ء)