حضرت حوا کی پیدائش

حضرت حوا کی پیدائش کے متعلق تفہیم القرآن جلد۱، صفحہ۳۱۹ میں جناب نے تصریح کی ہے کہ آدم ؈ کی پسلی سے نہیں ہوئی۔ حدیث بخاری خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعِ آدَمَ کا کیا جواب ہوگا؟
جواب

قرآن مجید میں کسی جگہ بھی یہ تصریح نہیں ہے کہ حضرت حوا کو آدم ؑ کی پسلی سے پیدا کیا گیا تھا۔زیادہ سے زیادہ اس خیال کی تائید میں جو چیز پیش کی جاسکتی ہے،وہ قرآن کا یہ ارشاد ہے:
خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَہَا (النسائ :۱)
’’جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا۔‘‘
اور جَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا (الزمر:۶) ’’جس نے اُس جان سے اس کا جوڑا بنایا۔‘‘
لیکن ان دونوں آیتوں میں منھا کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ’’اسی نفس سے اس کا جوڑا بنایا‘‘ اور یہ بھی کہ ’’اِسی کی جنس سے اُس کا جوڑا بنایا‘‘۔ ان دونوں میں سے کسی معنی کو بھی ترجیح دینے کے لیے کوئی دلیل قرآن کی ان آیتوں میں نہیں ہے، بلکہ قرآن کی بعض دوسری آیتیں تو دوسرے معنی کی تائید کرتی ہیں ۔مثلاً سورۂ روم میں فرمایا:
وَمِنْ اٰيٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا (الروم:۲۱)
’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری جنس سے بیویاں بنائیں ۔‘‘
اور سورۂ الشوریٰ میں فرمایا:
جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا (الشوریٰ:۱۱ )
’’جس نے تمھاری اپنی جنس سے تمھارے لیے جوڑے پیداکیے۔‘‘
یہی مضمون سورۂ النحل آیت۷۲ میں بھی آیا ہے۔ظاہر ہے کہ ان تینوں آیتوں میں مِنْ اَنْفُسِكُم کے معنی مِنْ جِنْسِکُم ہی لیے جائیں گے، نہ یہ کہ تمام انسانوں کی بیویاں ان کی پسلیوں سے پیدا ہوئی ہیں ۔اب اگر پہلے معنی کو ترجیح دینے کے لیے کوئی بنیاد مل سکتی ہے تو وہ حضرت ابو ہریرہؓ کی وہ روایات ہیں جو بخاری ومسلم نے نقل کی ہیں ۔مگر ان کے الفاظ میں اختلاف ہے۔ایک روایت میں وہ نبیﷺ کا ارشاد ان الفاظ میں نقل فرماتے ہیں کہ
اَلْمَرْأَةُ كَالضِّلَعِ، إِنْ أَقَمْتَهَا كَسَرْتَهَا، وَ إِنْ اسْتَمْتَعْتَ بِهَا اسْتَمْتَعْتَ بِهَا وَفِيهَا عِوَجٌ({ FR 1486 }) ’’عورت پسلی کے مانند ہے، اگر تو اسے سیدھا کرے گا تو توڑ دے گا اور اگر اس سے فائدہ اٹھائے گا تو اس کے اندر کجی باقی رہتے ہوئے ہی فائدہ اٹھاسکے گا۔‘‘
اور دوسری روایت میں انھوں نے حضور ﷺ کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں :
اِسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا فَإِنَّهُنَّ خُلِقْنَ مِنْ ضِلَعٍ وَإِنَّ أَعْوَجَ شَيْءٍ فِي الضِّلَعِ أَعْلَاهُ فَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهُ كَسَرْتَهُ وَإِنْ تَرَكْتَهُ لَمْ يَزَلْ أَعْوَجَ فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا({ FR 1487 }) ’’عورتوں کے معاملے میں بھلائی کی نصیحت قبول کرو، کیوں کہ وہ پسلی سے پیدا ہوئی ہیں ، اور پسلی کا سب سے ٹیڑھا حصہ اس کا بالائی حصہ ہوتا ہے۔اگر تو اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کو توڑ دے گا اور اگر چھوڑ دے گا تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔ لہٰذا عورتوں کے معاملے میں بھلائی کی نصیحت قبو ل کرو۔‘‘
ان دونوں حدیثوں میں سے پہلی حدیث تو عورت کو پسلی سے محض تشبیہ دے رہی ہے۔اس میں سرے سے یہ ذکر ہی نہیں ہے کہ وہ پسلی سے پیدا ہوئی ہے۔البتہ دوسری حدیث میں پسلی سے پیدائش کی تصریح ہے۔لیکن یہ امر قابل غور ہے کہ اس میں حضرت حوا یا پہلی عورت یا ایک عورت کی نہیں بلکہ تمام عورتوں کی پیدائش پسلی ہی سے بیان کی گئی ہے۔({ FR 1431 }) کیا فی الواقع دنیا کی تمام عورتیں پسلیوں ہی سے پیدا ہوا کرتی ہیں ؟اگر یہ بات نہیں ہے، اور ظاہر ہے کہ نہیں ہے، تو ماننا پڑے گا کہ یہاں خُلِقْنَ مِنْ ضِلَعٍ کے الفاظ اس معنی میں نہیں ہیں کہ وہ پسلی سے پیداکی گئی یا بنائی گئی ہیں ، بلکہ اس معنی میں ہیں کہ ان کی ساخت میں پسلی کی سی کجی ہے۔ اس کی مثال قرآن مجید کی یہ ا ٓیت ہے کہ خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ (الانبیائ :۳۷)
اس کے معنی بھی یہ نہیں ہیں کہ انسان جلد بازی سے پیدا کیا گیا ہے، بلکہ یہ ہیں کہ انسان کی سرشت میں جلد بازی ہے ۔
اس تشریح سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ پسلی سے حضرت حوا کی پیدائش کا خیال قرآن ہی میں نہیں ، حدیث میں بھی کسی مضبوط دلیل پر مبنی نہیں ہے۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ بنی اسرائیل سے یہ روایت نقل ہوکر مسلمانوں میں شائع ہوئی اور بڑے بڑے لوگو ں نے اسے نہ صرف قبول کیا بلکہ اپنی کتابوں میں بھی ثبت کر دیا۔ مگر کیا یہ صحیح ہے کہ اﷲ اور رسول ﷺ کی سند کے بغیر محض بڑے لوگوں کے اقوال کی بِنا پر اسے ایک اسلامی عقیدہ ٹھیرا دیا جائے اور جو کوئی اس پر ایمان نہ لائے، اسے گمراہ قرار دیا جائے؟ ( ترجمان القرآن، مئی ۱۹۵۶ء)