حضرت عمرؓ کا نماز تراویح کو باجماعت جاری کرنا

کیا کسی صحابی کو یہ حق حاصل ہے کہ نبی ﷺ جس چیز کو یہ کہہ کر رد کردیں کہ مَا زَالَ بِكُمْ الَّذِي رَأَيْتُ مِنْ صَنِيعِكُمْ حَتَّى خَشِيتُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْكُمْ وَلَوْ كُتِبَ عَلَيْكُمْ مَا قُمْتُمْ بِهِ، فَصَلُّوا أَيُّهَا النَّاسُ فِي بُيُوتِكُمْ، فَإِنَّ أَفْضَلَ صَلَاةِ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ({ FR 2061 }) تو وہ اُسے پھر باقاعدہ جماعت کے ساتھ مساجد میں جاری کرے؟
جواب

حضور ﷺ کے زمانے سے لے کر حضرت عمرؓ کے ابتدائی زمانے تک باقاعدہ ایک جماعت میں سب لوگوں کے تراویح پڑھنے کا طریقہ رائج نہ تھا،بلکہ لوگ یا تو اپنے اپنے گھروں میں پڑھتے تھے یا مسجد میں متفرق طور پر چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی شکل میں پڑھاکرتے تھے۔حضرت عمرؓ نے جو کچھ کیا وہ صرف یہ تھا کہ اسی تفرق کو دورکرکے سب لوگوں کو ایک جماعت کی شکل میں نماز پڑھنے کا حکم دے دیا۔ اس کے لیے حضرت عمرؓ کے پاس یہ حجت موجود تھی کہ حضورﷺنے خود تین بار جماعت کے ساتھ تراویح پڑھائی تھی۔اس لیے اس فعل کو بدعت نہیں کہا جاسکتا۔ اور چوں کہ حضورﷺ نے اس سلسلے کو یہ فرما کر بند کیا تھاکہ کہیں یہ فرض نہ ہوجائے، اور حضور ﷺ کے گزر جانے کے بعد اس امر کا اندیشہ باقی نہ رہا تھا کہ کسی کے فعل سے یہ چیز فرض قرار پاسکے گی، اس لیے حضرت عمرؓ نے ایک سنت اور مندوب چیز کی حیثیت سے اس کو جاری کردیا۔ یہ حضرت عمرؓ کے تفقہ کی بہترین مثالوں میں سے ایک ہے کہ انھوں نے شارع کے منشا کو ٹھیک ٹھیک سمجھا اور اُمت میں ایک صحیح طریقے کو رائج فرما دیا۔ صحابہ کرامؓ میں سے کسی کا اس پر اعتراض نہ کرنا، بلکہ بسروچشم اسے قبول کرلینا یہ ثابت کرتا ہے کہ شارع کے اس منشا کو بھی ٹھیک ٹھیک پورا کیا گیا کہ’’اسے فرض کے درجے میں نہ کردیا جائے۔‘‘چنانچہ کم ازکم ایک بار تو ان کا خود تراویح میں شریک نہ ہونا ثابت ہے جب کہ وہ عبدالرحمن بن عبدؓ کے ساتھ نکلے اور مسجد میں لوگوں کو تراویح پڑھتے دیکھ کر اظہار تحسین فرمایا۔ (ترجمان القرآن ، اپریل،مئی۱۹۵۲ء)