حضرت عیسیٰ ؈ کی تعلیمات اور رسول اللہ ﷺ کی بعثت

قرآن نے مسیح کی نسبت چار وعدے ذکر کیے ہیں ۔ چوتھا وعدہ ہے: وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ({ FR 1659 }) ( آل عمران:۵۵ ) مسیح کے متبعین اور مسیح کے کافر دونوں کے وجود کا قیامِ قیامت تک پایا جانا اس بات کو مستلزم ہے کہ مسیح کے متبعین مسیح کے اتباع پر قائم رہیں اور اتباع کے لیے مسیح کی ہدایت اور تعلیم کا قائم اور محفوظ رہنا اور پھر قیامت تک محفوظ رہنا ضروری ہے، جس سے لازم آتا ہے کہ مسیح ہی قیامت تک اپنی تعلیم اور ہدایت دائمی کی رُو سے دائمی ہادی ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو درمیان میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے وجود کو گھسیڑنےکے کیا معنی؟ دوسرے اسلام کا تخالف پہلی صورت مسلمہ کے منافی معلوم ہوتا ہے۔
جواب

کاتب خط کوئی مسیحی پادری معلوم ہوتے ہیں جنھوں نے مسلمان بن کر سوال کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر وہ ایک سچے عیسائی کی طرح سامنے آکر اعتراضات کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا اور اس صورت میں بھی ان کے اعتراض کا جواب اسی محبت سے دیا جاتا جس کے ساتھ ایک بھٹکے ہوئے مسلمان کو دیا جاسکتا ہے۔ خیر طریق اعتراض کے انتخاب میں وہ آزاد ہیں ۔ ہمارا کام بہرحال ان کے اعتراض کو رفع کرنا اور انھیں مطمئن کرنے کی کوشش کرنا ہے۔
(۱) سب سے پہلے میں آپ کو اس بڑی اور بنیادی غلطی پر متنبہ کر دینا ضروری سمجھتا ہوں جو نہ صرف آپ نے کی ہے بلکہ مسیحی معترضین بالعموم اس میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں ۔ وہ غلطی یہ ہے کہ آپ لوگ جب اسلام اور پیغمبر اسلام کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے آپ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ ایک نئے مذہب کا نام ہے جس کا آغاز ساتویں صدی عیسوی میں ہوا اور محمدﷺ اس کے بانی تھے۔ اسی وجہ سے آپ کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اگر توراۃ و انجیل برحق تھی اور موسیٰ و مسیح برحق تھے تو ان کے بعد ’’اسلام‘‘ کیوں آیا اور ’’پیغمبر اسلام‘‘ کے ظہور کی کیا ضرورت لاحق ہوئی۔ لیکن قاعدے کی بات ہے کہ اگر آپ کسی پر گرفت کرنا چاہتے ہوں تو اسے اس دعویٰ پر پکڑیئے جو اس نے خود کیا ہو نہ کہ اس الزام پر جو آپ زبردستی اس کے سرمنڈھ دیں ۔ محمدﷺ نے یہ کب کہا تھا کہ میں ایک نئے مذہب کی بنا ڈال رہا ہوں اور میرے اس نو ایجاد مذہب کا نام اسلام ہے؟ وہ تو اس بات کے سرے سے مدعی ہی نہیں ہیں ۔
ان کا دعویٰ یہ ہے کہ میں اسی مذہب کو لے کر آیا ہوں جسے مجھ سے پہلے عیسیٰ اور موسیٰ اور ابراہیم اور نوح ؊ لے کر آئے تھے اور اس مذہب کا نام ہمیشہ سے اسلام (خدا کی فرماں برداری) ہی تھا نہ کہ یہودیت یا عیسویت۔ پھر وہ ان گزشتہ پیغمبروں کے بعد اپنے آنے کی وجہ جو بیان کرتے ہیں اس میں بھی کہیں یہ دعویٰ نہیں ہے کہ موسیٰ اور مسیح ؉ کی تعلیمات دنیا سے بالکل مٹ گئی تھیں ، یا بالکل مسخ ہوگئی تھیں اس لیے بھیجا گیا ہوں ۔ بلکہ وہ جو کچھ کہتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ اوّل تو توراۃ و انجیل میں تحریف ہوگئی ہے، دوسرے اس تحریف کے باوجود جو خدائی تعلیمات ان دونوں میں صاف صاف پائی جاتی ہیں ان سے ہٹ کر پیرو ان موسیٰ نے ایک نیا نظام ’’یہودیت‘‘ کے نام سے اور پیروان عیسیٰ نے ایک دوسرا نظام ’’مسیحیت‘‘ کے نام سے بنا لیا ہے، اور ان دونوں مذہبوں میں بہت سی ایسی باتیں بِنائے دین بنالی گئی ہیں جو اس اسلام کے خلاف ہیں جسے موسیٰ اور عیسیٰ لے کر آئے تھے۔ اس لیے ضرورت پیش آئی کہ پھر اسلام کی اصل تعلیم کو اس کی خالص صورت میں آمیزشوں سے چھانٹ کر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے اور اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے میں بھیجا گیا ہوں ۔ یہ ہے محمدﷺ کا اصل دعویٰ۔ اب اگر آپ گرفت کرنا چاہتے ہیں تو اس دعویٰ پرکیجیے۔
یہ آخر بحث و تحقیق کا کون سا طریقہ ہے کہ ایک شخص کی طرف آپ بطور خود ایک دعویٰ خواہ مخواہ منسوب کرتے ہیں — جس سے وہ بشدت انکاری ہے— اور پھر اس کے دعوے پر نہیں ، بلکہ اپنے منسوب کیے ہوئے دعوے پر اعتراضات شروع کر دیتے ہیں ۔ اس غلطی کا ارتکاب آج سے نہیں ، ایک مدت سے مسیحی علما کر رہے ہیں اور یہی غلطی ہے جس پر ان کے اکثر و بیشتر اعتراضات کی بنا قائم ہے۔ اگر آپ واقعی ایک محقق ہیں تو میں آپ سے درخواست کروں گا کہ پہلے آپ ٹھنڈے دل سے اس امر کی تحقیق فرمائیں کہ محمد ﷺ کا اصل دعویٰ وہ ہے جو میں بیان کر رہا ہوں یا وہ جو آپ ان کی طرف منسوب کر رہے ہیں ؟ پھر اگر ثابت ہو کہ ان کا واقعی دعویٰ وہی ہے جو میں نے عرض کیا ہے تو یہ دیکھیں کہ آیا وہ صحیح ہے یا نہیں ؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ تمام انبیا علیہم السلام کا مذہب ’’اسلام‘‘ (خدا کی فرماں برداری)تھا؟ کیا وہ ازلی و ابدی حقیقتیں جن کو ماننے اور جن کے مطابق اخلاق و اعمال کو ڈھالنے پر انسان کی نجات کا مدار ہے ہمیشہ سے وہی نہیں رہی ہیں جن کی طرف محمد ﷺ نے دعوت دی ہے؟ کیا خدا کے ہاں انسان کی نجات کا مدار ابراہیم اور اسحق کے زمانے میں کچھ اور اصولوں پر، موسیٰ اور عیسیٰ کے زمانے میں کچھ دوسرے اصولوں پر اور بعد کے زمانے میں ان سے مختلف اصولوں پر ہوسکتا ہے؟ اگر آپ مانتے ہیں کہ یہ اصول ازلی و ابدی ہیں تو نو ایجاد مذہب یہودیت اور مسیحیت قرار پاتے ہیں یا اسلام؟ یہودیت اور مسیحیت میں تو آپ متعدد ایسی چیزیں پائیں گے جن کو اصول (یعنی مدارِ نجات) کا مرتبہ دیا گیا ہے حالانکہ وہ ایک خاص نسل یا ایک خاص زمانے تک محدود ہیں ۔ لیکن محمدﷺ کی تعلیمات میں آپ قطعاً کوئی چیز ایسی نہیں پاسکتے جو نوع انسانی کی نجات کے عالم گیر ازلی و ابدی اصولوں سے زائد یا ان سے مختلف ہو۔ اس نقطۂ نظر سے آپ دیکھیں گے تو سوال کی نوعیت ہی بدل جائے گی۔ پھر تو سوال یہ نہ ہوگا کہ محمد ﷺبیچ میں کہاں آگئے بلکہ یہ ہوگا کہ آدم نوح اور ابراہیم و اسحق کے وقتوں سے جو اصل دین (اسلام) چلا آرہا تھا اس کے سلسلے میں یہ یہودیت اور مسیحیت کہاں آ داخل ہوئیں ؟
(۲)آپ نے اپنے پہلے اعتراض میں جو آیت نقل کی ہے اس میں مسیح کا انکار کرنے والوں سے مراد یہودی ہیں اور مسیح کا اتباع کرنے والوں میں نصاریٰ اور مسلمان دونوں شامل ہیں ۔ اور اگر اتباع سے مراد اتباع کامل یعنی ٹھیک قدم بقدم چلنا مراد لیا جائے تب تو نصاریٰ اس کے مصداق نہیں رہتے، بلکہ صرف مسلمان ہی اس کے مصداق قرار پاتے ہیں ۔ اس لیے کہ نصاریٰ نے سیدنا عیسیٰ ؈ کی تعلیم کے اصل الاصول کو چھوڑ دیا اور یہودیوں کے بالمقابل ایک دوسرے طور پر ان کے ساتھ کفر کیا۔ بخلاف اس کے مسلمان اسی تعلیم پر قائم رہے جو حضرت عیسیٰ ؈نے اور ان سے پہلے تمام انبیا ؊ نے دی تھی۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے جتنے بھی رسول آئے ہیں خواہ وہ کسی ملک اور کسی زمانے میں آئے ہوں ، ان سب کی ایک ہی تعلیم تھی، اور وہ یہ تھی کہ خداے واحد کی بندگی کرو۔ ان میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ مجھ کو خدا مان لو۔
مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّؤْتِيَہُ اللہُ الْكِتٰبَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّۃَ ثُمَّ يَقُوْلَ لِلنَّاسِ كُوْنُوْا عِبَادًا لِّيْ مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلٰكِنْ كُوْنُوْا رَبّٰـنِيّٖنَ ( آل عمران:۷۹) ’’کسی بشر کا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ تو اس کو کتاب اور حکم اور نبوت عطا کرے، اور وہ لوگوں سے کہے کہ تم خدا کو چھوڑ کر میرے بندے بن جائو۔ بلکہ وہ تو یہی کہے گا کہ تم خدا پرست بن جائو۔‘‘
اسی مقدس گروہ کے ایک فرد حضرت عیسیٰ؈ بھی تھے اور انھوں نے بھی کبھی عبدیت کے مقام سے بال برابر تجاوز کرنے کی کوشش نہیں کی۔
لَنْ يَّسْتَنْكِفَ الْمَسِيْحُ اَنْ يَّكُوْنَ عَبْدًا لِلّٰہِ ( النساء:۱۷۲) ’’مسیح نے کبھی اس کو عار نہ سمجھا کہ وہ اللہ کا ایک بندہ ہو۔‘‘
پس نصاریٰ کا عقیدۂ تثلیث اورعیسیٰ علیہ السلام کی طرف الوہیت کی نسبت کرنا اور ان کو خدا کا بیٹا کہنا دراصل حضرت عیسیٰ ؈کی تعلیم کے قطعاً خلاف ہے، اور جو لوگ ایسا عقیدہ رکھتے ہیں وہ آپ کے ساتھ ویسا ہی کفر کرتے ہیں جیسا کہ یہودی کرتے ہیں ۔
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللہَ ہُوَالْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ۝۰ۭ وَقَالَ الْمَسِيْحُ يٰبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اعْبُدُوا اللہَ رَبِّيْ وَرَبَّكُمْ۝۰ۭ … لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللہَ ثَالِثُ ثَلٰــثَۃٍ (المائدہ:۷۲-۷۳) ’’یقیناً کفر کیا ان لوگوں نے جنھوں نے کہا کہ مسیح ابن مریم ہی اللہ ہے، درانحالیکہ خود مسیح نے کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل تم اللہ کی بندگی کرو جو میرا اور تمھارا پروردگار ہے— یقیناً کفر کیا انھوں نے جنھوں نے کہا کہ اللہ تین میں کا ایک ہے۔‘‘
اس لحاظ سے اِتَّبَعُوْکَ کے اصلی مصداق مسلمان اور وہ عیسائی ہیں جو مسیح کو خدا کا بیٹا نہیں بلکہ اس کا رسول مانتے ہیں ، ان کی طرف کسی درجے میں الوہیت کو منسوب نہیں کرتے، اور اس عقیدۂ صالحہ کے قائل ہیں ، اِنَّمَا الْمَسِيْحُ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُوْلُ اللہِ وَكَلِمَتُہٗ۝۰ۚ اَلْقٰىہَآ اِلٰي مَرْيَمَ وَرُوْحٌ مِّنْہُ({ FR 1444 }) (النساء:۱۷۱) اور اِنَّمَا اللہُ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۝۰ۭ سُبْحٰنَہٗٓ اَنْ يَّكُوْنَ لَہٗ وَلَدٌ({ FR 1445 }) (النساء:۱۷۱ ) البتہ اگر اتباع سے مراد اتباع کامل نہ لیا جائے تو اس اعتبار سے مسلمانوں کی طرح عیسائی بھی متبعین مسیح میں داخل ہو جاتے ہیں ، اور اللہ کا یہ وعدہ دونوں سے متعلق ہو جاتا ہے کہ ان کو یہودیوں پر غلبہ عطا فرمائے جنھوں نے مسیح کا قطعی اور کلی انکار کیا۔
(۳) مسیح؈ کی، اور صرف انھی کی نہیں بلکہ تمام انبیا کی ہدایت اور تعلیم اپنی اصل جائےکے لحاظ سے قائم و محفوظ ہے، اور قیامت تک رہے گی جیسا کہ ابتدا میں عرض کر چکا ہوں ، محمدﷺ اس تعلیم و ہدایت کو مٹانے نہیں آئے تھے بلکہ اس کو ثابت اور مستحکم کرنے اور ان آمیزشوں سے پاک کرنے آئے تھے جو انسانی خواہشات اور بشری و ساوس کی بدولت اس میں گھل مل گئی تھیں ۔ نصاریٰ سے ان کی جنگ اس بات پر نہ تھی کہ وہ مسیح اور ان کی تعلیم و ہدایت کو کیوں مانتے ہیں ، بلکہ اس بات پر تھی کہ وہ اس کو کیوں نہیں مانتے۔ انھوں نے بار بار اپنے خدا کی طرف سے فرمایا کہ يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْۭ({ FR 1497 }) (النساء:۱۷۱ ) اور يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰي شَيْءٍ حَتّٰي تُقِيْمُوا التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ۝۰ۭ({ FR 1587 }) (المائدہ:۶۸ ( اور وَلَوْ اَنَّہُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِمْ مِّنْ رَّبِّہِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِہِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْۭ({ FR 1588 }) (المائدہ:۶۶ ( اور وَلْيَحْكُمْ اَہْلُ الْاِنْجِيْلِ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فِيْہِ({ FR 1450 }) (المائدہ:۴۷ (مگر جب دیکھا کہ مسیح کے متبعین سرے سے انجیل ہی کھو بیٹھے ہیں اور انجیل کے نام سے مسیح کی چند سوانح عمریاں لیے پھرتے ہیں جن میں مسیح کی تعلیم و ہدایت کا ایک بہت ہی خفیف حصہ اور وہ بھی آمیزشوں سے آلودہ پایا جاتا ہے تو انھوں نے نصاریٰ کے سامنے قرآن پیش کیا، اور کہا کہ جو کچھ تم نے کھو دیا تھا، وہ پہلے سے بھی زیادہ مکمل صورت میں پھر تمھارے پاس آگیا ہے۔ یہ وہی تعلیم ہے جو مسیح؈ نے دی اور ان سے پہلے موسیٰ؈ اور ابراہیم؈ اور نوح؈ دے چکے ہیں ، تم نے اور تم سے پہلے کی امتوں نے اس ہدایت کو باربار گم کیا، مگر اب یہ ہدایت تم کو ایسی مستحکم صورت میں دی جاتی ہے کہ قیامت تک اس کو کوئی گم نہ کر سکے گا۔ پس درحقیقت متی اور مرقس اور لوقا اور یوحنا کی کتابوں میں نہیں بلکہ قرآن میں مسیح کی اصلی تعلیم قائم اور محفوظ ہے اور وہی ان شاء اللہ قیامت تک محفوظ رہے گی۔
(۴) آپ کا یہ قول بھی محل نظر ہے کہ آیت زیر بحث سے لازم آتا ہے کہ ’’مسیح ہی قیامت تک اپنی تعلیم اور ہدایت دائمی کی رُو سے دائمی ہادی ہے۔‘‘ یہ مفہوم آپ کے تخیل کا پیدا کردہ ہے۔ آیت کے الفاظ اس پر دلالت نہیں کرتے۔ وہاں تو صرف اس قدر کہا گیا ہے کہ جو تیرا انکار کرتے ہیں ، ان پر ہم تیرا اتباع کرنے والوں کو قیامت تک غالب رکھیں گے۔ ان الفاظ سے یہ معنی کیوں کر نکالے جاسکتے ہیں کہ اب تو ہی دائمی ہادی ہے اور تیرے بعد یہی ہدایت پیش کرنے کے لیے کوئی اور نبی نہ بھیجا جائے گا۔ افسوس کہ آیات کتاب میں لفظی و معنوی تحریفات کرنے کی پرانی عادت ہمارے مسیحی بھائیوں میں سے ابھی تک نہیں گئی۔