حضرت موسیٰ ؈ کی دعوت کے دو اہم اجزا

سیاسی کش مکش حصہ سوم میں صفحہ۹۵ پر آپ لکھتے ہیں :’’پہلا جز یہ ہے کہ انسان کو بالعموم اﷲ کی حاکمیت واقتدارِ اعلیٰ تسلیم کرنے اور اس کے بھیجے ہوئے قانون کو اپنی زندگی کاقانون بنانے کی دعوت دی جائے،دعوت عام ہونی چاہیے اور اس کے ساتھ دوسری غیر متعلق چیزوں کی آمیزش نہ ہونی چاہیے۔‘‘ کیا دعوتِ توحید کے ساتھ رہائی بنی اسرائیل کا مطالبہ جو حضرت موسیٰ ؑنے کیا، غیر متعلق چیز نہ تھی؟
جواب

قرآنِ مجید میں حضرت موسیٰ ؈ کا قصّہ متعد د مقامات پر آیا ہے۔ابتدائی مکی سورتوں میں جو قرآن مجید کے آخری حصے میں ملتی ہیں ،یہ ذکر کیا جاچکا تھا کہ حضرت موسیٰ ؑ نے فرعون کو خدا کی بندگی قبول کرنے کی دعوت دی تھی۔ مثلاً سورۂ النازعات میں ارشاد ہوتا ہے:
اِذْہَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰىo فَقُلْ ہَلْ لَّكَ اِلٰٓى اَنْ تَـزَكّٰىo وَاَہْدِيَكَ اِلٰى رَبِّكَ فَتَخْشٰى (النازعات:۱۷-۱۹)
’’فرعون کے پاس جا، وہ سرکش ہوگیا ہے اور اس سے کہہ کیاتو اس کے لیے تیار ہے کہ پاکیزگی اختیار کرے اور میں تیرے رب کی طرف تیری راہ نمائی کروں تو (اس کا) خوف تیرے اندر پیدا ہو۔‘‘
اس میں رہائی بنی اسرائیل کا سرے سے ذکر ہی نہیں ہے۔البتہ بعد کی مکی سورتوں میں اس کا ذکر آتا ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ منصبِ نبوت پر حضرت موسیٰ ؈ کے تقرر کے دومقاصد تھے: اوّل فرعون اور اس کی قوم کو اسلام کی طرف دعوت دینا۔ دوسرے اگر وہ اس دعوت کو قبول نہ کرے تو پھر اس مسلمان قوم کو،جو حضرت ابراہیم؈ کے وقت سے مسلمان چلی آرہی تھی اور حضرت یوسف؈ کے بعد چار پانچ صدیوں کے دوران میں کسی وقت کفار سے مغلوب ہوکر رہ گئی تھی،کفار کے تسلّط سے نکالنے کی کوشش کرنا۔ حضرت موسیٰ ؈ نے پہلے مقصد کی طرف پہلے دعوت دی اور دوسرے مقصد کو بعد میں لیا۔ دوسرے مقصدکو پہلے مقصد سے غیر متعلق سمجھنے کی کوئی وجہ مجھے نظرنہیں آتی۔ ہر نبی کے مشن کا دوسرا مرحلہ لازماًیہی ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے اس کی دعوت کو رد کردیا ہے،ان کے تسلّط سے اہلِ ایمان کو نکالنے کی کوشش کرے۔
(ترجمان القرآن،جولائی ، اگست۱۹۴۳ء)