حضرت نوح ؈ کے ساتھ کشتی میں سوار لوگ

ثانیاً آپ نے خیال ظاہر کیا ہے کہ دنیا کی موجودہ انسانی نسل ان سب لوگوں کی ہے جو کہ حضرت نوح ؈ کے ساتھ کشتی میں سوار تھے۔آپ نے ذُرِّیَّۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ (بنی اسرائیل:۳ ) سے اس کی دلیل اخذ کی ہے۔ لیکن یہ صحیح نہیں ،کیوں کہ نوح ؈ کے ساتھ ان کے تین بیٹے بھی کشتی میں سوار تھے۔ ظاہر ہے کہ اس جگہ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ سے مراد حضرت نوح؈ کے بیٹے ہیں نہ کہ کچھ اور لوگ۔دوسری جگہ اس کی تفسیر خود قرآن کے یہ الفاظ کرتے ہیں کہ وَجَعَلْنَا ذَرِیَّتَہٗ ھُمْ الْبٰقِیْن (الصافات:۷۷) کتنے کامل حصر کے الفا ظ ہیں !
جواب

حضرت نوح ؈ کے متعلق یہ بات قرآن مجید سے ثابت ہے کہ ان پر ایمان لانے والے صرف ان کے گھر کے لوگ ہی نہ تھے بلکہ ان کی قوم کے دوسرے لوگ بھی تھے،اگرچہ تھوڑے تھے۔ نیز یہ کہ کشتی میں یہ سب اہل ایمان سوار کیے گئے تھے۔سورۂ ہود میں ہے:
قُلْنَا احْمِلْ فِيْہَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَاَہْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْہِ الْقَوْلُ وَمَنْ اٰمَنَ۝۰ۭ وَمَآ اٰمَنَ مَعَہٗٓ اِلَّا قَلِيْلٌ (ہود:۴۰) ’’ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو، اپنے گھر والوں کو بھی۔ سواے ان اشخاص کے جن کی نشان دہی پہلے کی جاچکی ہے۔ اس میں سوار کرادو ان لوگوں کو بھی بٹھا لو جوایمان لاتے ہیں ۔ اور تھوڑے ہی لوگ تھے جواس کے ساتھ ایمان لائے تھے۔‘‘
ان لوگوں کے بارے میں یہ کہیں بھی نہیں کہا گیا کہ ان سب کی نسل ناپید ہوگئی۔
اس کے برعکس قرآن مجید دو جگہ تصریح کرتا ہے کہ بعد کی نسلیں انھی لوگوں کی اولاد تھیں جو حضرت نوح؈ کے ساتھ کشتی پر سوار کیے گئے تھے۔سورۂ بنی اسرائیل میں فرمایا:
ذُرِّيَّــۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ۝۰ۭ ( اسرائیل:۳) ’’تم اُن لوگوں کی اولاد ہو جنھیں ہم نے اُس کے ساتھ کشتی میں سوار کیا تھا۔‘‘
اور سورۂ مریم میں فرمایا:
مِّنَ النَّبِيّٖنَ مِنْ ذُرِّيَّۃِ اٰدَمَ۝۰ۤ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ۝۰ۡوَّمِنْ۔۔۔ ( مریم:۵۸)
’’آدمؑ کی اولاد میں سے، اور ان لوگوں کی نسل سے جنھیں ہم نے نوح کے ساتھ کشی پر سوار کیا تھا۔‘‘
اس کے جواب میں آپ کا یہ ارشاد کہ سورۂ الصا فّات میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَجَعَلْنَا ذُرِّيَّتَہٗ ہُمُ الْبٰقِيْنَ (الصافات:۷۷) ’’اور اُسی کی نسل کو باقی رکھا۔‘‘
اور یہ حصر پر دلالت کرتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں مقصود یہ ظاہر کرنا نہیں ہے کہ صرف حضرت نوح؈ کی اولاد ہی باقی رہی بلکہ یہ ظاہر کرنا ہے کہ جن لوگوں نے حضرت نوح؈ کو کرب عظیم میں مبتلا کیا تھا،وہ مٹ گئے اور باقی اس شخص کی ذریت ہی رہی،جس کو وہ مٹا دینا چاہتے تھے۔ (ترجمان القرآن،اپریل مئی:۱۹۵۱ء)