حضرت یوسف ؈ کا زلیخا کے ساتھ نکاح کرنے کی حقیقت

سورۂ یوسف کی تفسیر میں جناب نے لکھا ہے کہ زلیخا کو حضرت یوسف ؈ نے نکاح میں نہیں لیا،کیوں کہ قرآن کریم سے اس عورت کا بد چلن ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن کیا حضرت لوط اور حضرت نوح ؉ کی ازواج کافر نہ تھیں ؟اگر تھیں تو کفر کیا بدچلنی سے زیادہ شدید نہیں ہے؟ علاوہ بریں حضرت یوسف ؈ کے قصے میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ عقد نکاح کے وقت تک زلیخا مسلمان ہوچکی تھیں اور سابقہ بدچلنی سے تائب ہوگئی تھیں ۔
جواب

زلیخا سے حضرت یوسف ؈ کے نکاح کا کوئی ثبوت نہ قرآ ن میں ہے نہ کسی حدیث صحیح میں اور نہ بنی اسرائیل کی معتبر روایات میں ۔نیز قرآن مجید سے اس عورت کی توبہ کا بھی ثبوت نہیں ملتا۔پھرخواہ مخواہ اس قصے کی صحت پر اصرار کی کیا ضرورت ہے؟جس بدچلنی کا ارتکاب إمرأۃ العزیز سے ہوا تھا،حضرت لوط اور حضرت نوح ؉ کی بیویوں کے متعلق اس طرح کی کسی بدچلنی کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔رہا آپ کا یہ ارشاد کہ کفر سے زیادہ بدچلنی اور کیا ہوسکتی ہے،تو آپ خود غور کریں گے تو آپ کو اس قول کی کمزوری معلوم ہوجائے گی۔ زنا اور اس کے مقدمات ایک ایسی بدچلنی ہیں جو بالاتفاق تمام عالم انسانی میں قبائح اور رذائل میں سے شمار ہوتی ہے۔اس سے ملوث ہونا اور بات ہے اور کفر وشرک میں مبتلا ہونا اور بات۔انبیا ؊ کے آباواجداد اور بعض کے اہل بیت تک کفر وشرک میں مبتلا رہے ہیں ،مگر بے عصمتی میں مبتلا نہیں رہے۔اعتقادی حیثیت سے کفر وشرک خواہ کتنے ہی اشد ہوں مگر اخلاقی حیثیت سے بے عصمتی بہت زیادہ پست اور دنی چیز ہے،جسے کفار ومشرکین تک بھی ذلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ (ترجمان القرآن،اپریل مئی۱۹۵۱ء)