حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ کے معنی

مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰي حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ۝۰ۭ تُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا۝۰ۤۖ وَاللہُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَۃَ۝۰ۭ وَاللہُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌo لَوْلَا كِتٰبٌ مِّنَ اللہِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِــيْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌo فَكُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلًا طَيِّبًا۝۰ۡۖ وَّاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ o (الانفال:۶۷-۶۹) عام طور پر اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے: نبی کے لیے زیبا نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک وہ زمین میں اچھی طرح خون ریزی نہ کرلے۔ اس مفہوم کو ادا کرنے کے لیے اِثْخَان فِی الْاَرْضِ کے الفاظ قطعی طور پر مناسب نہیں ہیں ۔ اگر یہی بات کہنا ہوتی تو حَتّٰی یُثْخِنَہُمْ کے الفاظ استعمال کیے جاتے۔ لَوْ لَاکِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ کے الفاظ بھی قرآن حکیم میں بالعموم کفار کے لیے اِمہال کی سنت الٰہیہ کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوئے ہیں اور واقعہ یہی ہے کہ بدر میں اِثخان کچھ کم نہیں ہوا تھا۔ فِیْمَا اَخَذْتُمْ اس طرح کے اسلوب میں روش اختیار کرنے، طریقہ اپنانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ آیات کا پس منظر یہ ہے کہ بدر کے بعد جب فدیے پر معاملہ ہوا تو قریش نے پروپیگنڈا کرنا شروع کر دیا کہ یہ تو بس دنیا کے طالب ہیں ۔ یہ جنگ وجدال حق کی خاطر نہیں ، مالِ غنیمت سمیٹنے کے لیے برپا کیا گیا ہے۔ قیدیوں کو پکڑا ہے تو اب انھیں بھی فدیہ لے کر چھوڑ رہے ہیں ۔ نبوت کا توبس ادعا ہی ہے، اصل سوال تو روپے کا درپیش ہے جس کے لیے جتھہ بندی کی گئی ہے۔ اسی پروپیگنڈے کی تردید میں ارشاد ہوا: ’’یہ نبی کا مقام نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں یہاں تک کہ وہ اس کے لیے زمین میں خوں ریزی کرے۔ (اے قریش مکہ) یہ تم ہو جو دنیا کے طالب ہو، اللّٰہ تو بس آخرت کو چاہتا ہے اور اللّٰہ عزیز و حکیم ہے۔ اگر اللّٰہ کے ہاں پہلے ہی تمھارے لیے (اِمہال کا) نوشتہ نہ ہوتا تو جو روش تم نے اختیار کی تھی، اس کی پاداش میں تمھیں عذاب عظیم آلیتا۔‘‘
جواب

سب سے پہلے تو وہ پس منظر ہی غلط ہے جسے بنیاد بنا کر آیات کا نیا ترجمہ تجویز کیا گیا ہے۔ اس امر کا قطعاً کوئی ثبوت حدیث یا تاریخ کی روایات میں موجود نہیں ہے کہ قیدیوں کا فدیہ لینے پر کفارِ قریش نے اس طرح کا کوئی پروپیگنڈا کیا تھا، جو معترض نے بیان کیا ہے اور اس کے جواب میں یہ آیات نازل ہوئیں ۔ یہ محض ایک خود ساختہ مفروضہ ہے اور آیات قرآنی کی تفسیر ایسے مفروضات کی بنا پر کرنا کسی طرح صحیح نہیں ہے۔ اصل پس منظر یہ ہے کہ سورئہ محمد، آیت۴ میں جنگی قیدیوں سے فدیہ لینے کی اجازت اس شرط کے ساتھ دی گئی تھی کہ کفار سے جب لڑائی ہو تو پہلے ان کی گردنیں مار مار کر انھیں اچھی طرح کچل دیا جائے۔ پھر قیدی پکڑے جائیں ۔ اس کے بعد مسلمانوں کو اختیار دیا گیا تھا کہ خواہ ان کے ساتھ احسان کریں یا فدیہ لے لیں ۔ اس آیت کے ابتدائی الفاظ اِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ( الانفال:۱۵)(جب کافروں سے تمھاری مڈبھیڑ ہو) اس بات کو خود ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ فرمانِ الٰہی اس وقت نازل ہوا تھا جب کفار سے ابھی لڑائی کی نوبت نہیں آئی تھی۔ اس لیے اس کے حکم کا اطلاق سب سے پہلے جنگ بدر پر ہوا۔ جنگ بدر میں بلاشبہہ مجاہدین اسلام نے حمایت حق میں جان لڑا کر کفارِ قریش کی تین گنا بڑی قوت کو شکست دے دی تھی، لیکن اثخان کی شرط پوری کیے بغیر وہ قیدی پکڑنے میں لگ گئے۔ یہ بات حضرت سعد بن معاذ ؓ نے اسی وقت حضورﷺ سے عرض کر دی تھی جب وہ حضورﷺ کے ساتھ ایک بلند جگہ سے معرکے کو دیکھ رہے تھے۔ مجاہدین کو مالِ غنیمت حاصل کرنے اور قیدی پکڑنے میں مشغول دیکھ کر ان کے چہرے پر ناگواری کے اثرات ملاحظہ فرما کر حضورﷺ نے ان سے پوچھا: ’’اے سعد! معلوم ہوتا ہے کہ یہ کارروائی تمھیں پسند نہیں آ رہی ہے۔‘‘ انھوں نے عرض کیا جی ہاں ، یا رسول اللّٰہ، یہ پہلا موقع ہے جس میں اللّٰہ تعالیٰ نے اہل شرک کو شکست دلوائی ہے‘ اس وقت انھیں قیدی بنانے سے بہتر یہ ہوتا کہ انھیں خوب کچل ڈالا جاتا،({ FR 2094 }) (یعنی افراتفری میں بھاگتے ہوئے کافروں کو زیادہ سے زیادہ قتل کرکے ان کی طاقت توڑ ڈالی جاتی)۔ اسی بات کی تصدیق اللّٰہ تعالیٰ نے سورئہ انفال کی ان آیتوں میں فرما دی۔
اب دیکھیے کہ تفہیم القرآن میں اس کی ترجمانی کس طرح کی گئی ہے اور دوسرے جلیل القدر مترجمین نے ان کا کیا ترجمہ کیا ہے۔
تفہیم القرآن: ’’کسی نبی کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں دشمنوں کو اچھی طرح کچل نہ دے۔ تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو، حالانکہ اللّٰہ کے پیش نظر آخرت ہے اور اللّٰہ غالب اور حکیم ہے۔ اگر اللّٰہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکاہوتا تو جو کچھ تم نے لیا ہے، اس کی پاداش میں تم کو بڑی سزا دی جاتی۔ پس جو کچھ تم نے مال حاصل کیا ہے، اسے کھائو کہ وہ حلال و طیب ہے اور اللّٰہ سے ڈرتے رہو، یقیناً اللّٰہ در گزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
شاہ ولی اللّٰہ صاحبؒ: ’’سزا وار نبود پیغمبر را کہ بدست دے اسیران باشند تاآنکہ قتل بسیار بوجود آورد در زمین۔ می خواہید مالِ دنیار اوخدامی خواہد مصلحت آخرت را، وخدا غالب باحکمت است۔ اگر نبودے حکم خدا پیشے گرفتہ می رسید بشمادر آنچہ گرفتید عذابِ بزرگ۔ پس بخورید آنچہ غنیمت گرفتید حلال و پاکیزہ۔ وبترسید از خدا، ہر آئینہ خدا آمر زندہ مہربان است۔‘‘
شاہ رفیع الدین صاحبؒ: ’’نہ تھا لائق واسطے نبی کے یہ کہ ہوویں واسطے اس کے بندی دان، یہاں تک کہ خون ریزی کرے بیچ زمین کے۔ ارادہ کرتے ہو تم اسباب دنیا کا اور اللّٰہ ارادہ کرتا ہے آخرت کا اور اللّٰہ غالب حکمت والا ہے۔ اگر نہ ہوتا لکھا ہوا اللّٰہ کی طرف سے کہ پہلے گزرا، البتہ لگتا تم کو بیچ اس چیز کے کہ لیا تھا تم نے عذاب بڑا۔ پس کھائو اس چیز سے کہ غنیمت لیا ہے تم نے حلال پاکیزہ اور ڈرو اللّٰہ سے، تحقیق اللّٰہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
شاہ عبدالقادر صاحبؒ: ’’کیا چاہیے نبی کو یہ کہ اس کے یہاں قیدی آویں جب تک نہ خون کرے ملک میں ؟ تم چاہتے ہو جنس دنیا کی اور اللّٰہ چاہتا ہے آخرت اور اللّٰہ زور آور ہے حکمت والا۔ اگر نہ ہوتی ایک بات کہ لکھ چکا آگے، تو تم کو آ پڑتا اس لینے میں بڑا عذاب۔ سو کھائو جو غنیمت لائو حلال ستھری، اور ڈرتے رہو اللّٰہ سے، اللّٰہ ہے بخشنے والا مہربان۔‘‘
مولانا اشرف علی صاحبؒ: ’’نبی کی شان کے لائق نہیں کہ ان کے قیدی باقی رہیں (بلکہ قتل کر دیے جائیں ) جب تک کہ وہ زمین میں اچھی طرح (کفار کی) خوں ریزی نہ کرلیں ۔ تم تو دنیا کا مال اسباب چاہتے ہو اور اللّٰہ تعالیٰ آخرت (کی مصلحت) کو چاہتے ہیں ، اور اللّٰہ تعالیٰ بڑے زبردست بڑی حکمت والے ہیں ۔ اگر خدا تعالیٰ کا ایک نوشتہ مقدر نہ ہوچکا ہوتا تو جو امرتم نے اختیار کیا ہے اس کے بارے میں تم پر کوئی بڑی سزا واقع ہوتی۔ سو جو کچھ تم نے لیا ہے اس کو حلال پاک سمجھ کر کھائو اور اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، بے شک اللّٰہ تعالیٰ بڑے بخشنے والے بڑے رحمت والے ہیں ۔‘‘
دیکھ لیجیے تفہیم القرآن ہی میں نہیں ، باقی سب مستند ترجموں میں بھی اس نقطۂ نظر کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا جو آپ نے ان آیات کے مفہوم میں اختیار کیا ہے۔ اس کے بعد مفسرین کے اقوال بھی ملاحظہ کرلیجیے۔
ابن جریر: حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الَاَرْضِیعنی جب تک وہ زمین میں مشرکین کو خوب قتل کرے اور ان کو بزور مغلوب کرلے۔ لَوْلَاکِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ یعنی اے اہل بدر، اگر لوح محفوظ میں اللّٰہ کی طرف سے تمھارے لیے فیصلہ پہلے لکھا ہوا نہ ہوتا کہ اللّٰہ تمھارے لیے غنیمت حلال کرنے والا ہے… تو جو غنیمت اور فدیہ تم نے لیا ہے اس پر تمھیں ایک عذابِ عظیم آلیتا۔
زمخشری: اِثْخاَن کے معنی ہیں کثرت قتل اور اس میں مبالغہ… مطلب یہ ہے کہ اہل کفر میں خوب قتل جاری کرکے کفر کو ذلیل و ضعیف اور اسلام کو استیلاء و قہر سے غالب اور طاقت ور کرلیا جائے، اس کے بعد قیدی پکڑے جائیں ۔
امام رازی: اللّٰہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ نبی کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ زمین میں خوں ریزی نہ کرلے، اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ قیدی بنانا مشروع تو تھا مگر اس شرط کے ساتھ کہ پہلے زمین میں اثخان ہولے اور اِثْخَانْ سے مراد قتل اور تخویف شدید ہے… اور یہ بات (سورئہ محمد میں ) اللّٰہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے مؤکَّد ہو جاتی ہے کہ حَتّٰٓي اِذَآ اَثْخَنْتُمُوْہُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ۝۰ۤۙ فَاِمَّا مَنًّۢا بَعْدُ وَاِمَّا فِدَاۗءً ( محمد:۴) ’’یہاں تک کہ جب تم ان کو خوب کچل لو تو پھر قیدیوں کو باندھنا شروع کردو اور اس کے بعد یا تو احسان کرویا فدیہ لے لو۔‘‘
بیضاوی: لَوْلَا كِتٰبٌ مِّنَ اللہِ سَبَقَ (الانفال:۶۸) ’’یعنی اگر اللّٰہ کی طرف سے لوحِ محفوظ میں پہلے ہی حکم ثبت نہ ہوچکا ہوتا۔‘‘… لَمَسَّکُمْ، یعنی تم کو آلیتا۔ فِیْمآ اَخَذْتُمْ، یعنی اس فدیے کی پاداش میں جو تم نے لیا۔
آلُوسی: ثَخانَت کے اصل معنی اجسام میں گاڑھے اور دبیز ہونے کے ہیں ۔ پھر استعارے کے طور پر یہ لفظ قتل و جراحت میں مبالغہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ وہ بھی حرکت سے روک دیتا ہے اور مقتول و مجروح کو اس گاڑھی چیز کی طرح کر دیتا ہے جو بہتی نہیں ہے… لَمَسَّکُمْ، یعنی تمھیں لگتا یا پہنچتا (عذاب)۔ فِیْماَ اَخَذْتُمْ، یعنی اس چیز کی وجہ سے جو تم نے لی یا جو تم نے فدیہ میں حاصل کی۔
احکام القرآن للجصّاص: مَاکَانَ لِنَبِیٍّ… حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ اس کا ظاہر مقتضیٰ یہ ہے کہ غنائم اور قیدی اِثْخَان کے بعد مباح ہیں … اللّٰہ تعالیٰ نے ایک دوسری آیت (یعنی سورئہ محمد والی آیت میں فرمایا ہے: فَاِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ۝۰ۭ حَتّٰٓي اِذَآ اَثْخَنْتُمُوْہُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ (محمد:۴) ’’جب کفار سے تمھاری مڈبھیڑ ہوتو گردنیں مارو یہاں تک کہ جب تم انھیں خوب کچل لو تو قیدیوں کو باندھ لو۔‘‘ اس وقت پہلا فرض قتل تھا یہاں تک کہ مشرکین خوب کچل ڈالے جائیں ۔ اس کے بعد فدیہ لینا مباح تھا، اور اثخان سے پہلے فدیہ لینا جائز نہ تھا۔ آگے چل کر امام جصّاص صحیح سند کے ساتھ حضرت عمرؓ کا قول نقل کرتے ہیں کہ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ سے مراد فدیہ لینا ہے۔
یہ ان لوگوں کی تفسیریں ہیں جو عرّبیت کے بھی امام تھے اور آیاتِ قرآنی کے معنی و مفہوم کو سمجھنے میں بھی ممتاز تھے۔ ان سب نے اِثْخَانْ فِی الْاَرْضِ کے وہی معنی بیان کیے ہیں جو آپ کے نزدیک مناسب نہیں ہیں ۔ لَوْلَا كِتٰبٌ مِّنَ اللہِ کو اس اِمہال کے معنی میں نہیں لیا ہے جو آپ کے خیال میں کفار کے لیے سنت الٰہیہ ہے۔ کسی نے بھی قریش کے اس پروپیگنڈے کی طرف اشارہ تک نہیں کیا ہے جس کے متعلق آپ کہتے ہیں کہ یہ آیات اس کے جواب میں نازل ہوئی تھیں ۔ کسی کے نزدیک بھی پہلی آیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اثخان فی الارض نبی ﷺ کے شایانِ شان نہ تھا اور کسی نے بھی تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا سے لے کرعَذَابٌ عَظِیْمٌ تک سارے مضمون کا مخاطب کفارِ قریش کو نہیں قرار دیا۔ پھر آخر آپ کے پاس اس بات کا کیا جواب ہے کہعَذابٌ عَظِیْمٌ کے بعد فوراً ہی فَکُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ جو ارشاد ہوا ہے وہ اس معنی کے لحاظ سے، جو آپ بیان کر رہے ہیں ، مضمون سابق کے ساتھ کیا مناسبت رکھتا ہے؟ (ترجمان القرآن، دسمبر ۱۹۷۶ء)