حکومت کا جاگیروں کو واپس لینے کااختیار

زرعی اصلاحات کے سلسلہ میں جاگیروں کی واپسی میں واجبی حدود سے زائد واپس لینے کی دلیل بیان فرمائیں ، جب کہ حضرت زبیر رضی اللّٰہ عنہ کو حضور ﷺ نے گھوڑے اور چابک کی جو لان گاہ تک کی زمین دی تھی۔
جواب

(اس) سلسلے میں یہ بات اُصولی طور پر جان لینے کی ہے کہ حکومت کی عطا کردہ جاگیروں پر جاگیرداروں کے حقوق ملکیت اس طرح قائم نہیں ہوجاتے جس طرح کسی شخص کو اپنی زر خرید املاک یا موروثی ملکیتوں پر حاصل ہوتے ہیں ۔جاگیروں کے معاملے میں حکومت کو ہر وقت نظر ثانی کرنے کا حق حاصل ہے اور کسی عطیہ کو نامناسب پاکر حکومت منسوخ بھی کرسکتی ہے اوراس میں ترمیم بھی کرسکتی ہے۔
اس کی کئی نظیریں احادیث و آثار میں موجود ہیں ۔ابیض بن حمّال ما ٔربی کو نبی ﷺ نے ما ٔرب میں ایک ایسی زمین دی جس سے نمک نکلتا تھا۔بعد میں جب لوگوں نے حضورﷺ کو توجہ دلائی کہ وہ تو نمک کی بڑی کان ہے تو آپﷺ نے اسے اجتماعی مفاد کے خلاف پاکر اپنا عطیہ منسوخ فرما دیا۔({ FR 1641 })اس سے صرف یہی بات معلوم نہیں ہوتی کہ سرکاری عطایا پر نظرثانی کی جاسکتی ہے، بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کوحد اعتدال سے زیادہ دے دینا اجتماعی مفاد کے خلاف ہے،اور اگر ایسا عطیہ دیا جاچکا ہو تو اس پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ یہی بات اس روایت سے معلوم ہوتی ہے جس میں ذکر آتا ہے کہ حضرت ابو بکرؓ نے حضرت طلحہ ؓ کو ایک زمین کے عطیہ کا فرمان لکھ کر دیا اور فرمایا کہ اس پر فلاں فلاں اصحاب کی شہادت ثبت کرا لو جن میں سے ایک حضرت عمر ؓ بھی تھے۔جب حضرت طلحہؓ،حضرت عمرؓ کے پاس پہنچے تو آپؓ نے اس پر اپنی مہر لگانے سے انکار کردیا اور کہا:
اَھٰذا کْلُّہٗ لَکَ دُوْنَ النَّاسِ؟۔({ FR 1642 })
’’کیا اتنی ساری زمین دوسروں کو چھوڑ کر تنہا تم اکیلے کو دے دی جائے؟‘‘
رہا حضرت زبیرؓ کا معاملہ، توجس وقت حضور ﷺ نے وہ زمین ان کو دی ہے،اس وقت بے حساب زمینیں غیر آباد پڑی تھیں اور حضور ﷺ کے سامنے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ کسی طرح ان کو آباد کیا جائے۔اس لیے آپﷺ نے اس زمانہ میں بکثرت لوگوں کو افتادہ اراضی کے بڑے بڑے رقبے عطا فرمائے تھے۔ (ترجمان القرآن، جون ۱۹۵۱ء)