ختم نُبوَّت: نوعیت اور اہمیت

اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کا متفق علیہ عقیدہ یہ ہے کہ محمدﷺ اﷲ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں اور آپؐ کے بعد کوئی نیا نبی آنے والا نہیں ہے۔ تاہم مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور قادیانی جماعت کی بعض باتیں مجھے اچھی معلوم ہوتی ہیں ۔ مثلاًمرزا صاحب کا چہرہ میر ی نظرمیں معصوم اور بچوں جیسا دکھائی دیتا ہے۔کیا ایک جھوٹے نبی اور چالاک آدمی کا چہرہ ایسا ہوسکتا ہے؟ان کی پیشین گوئیاں بھی سواے آسمانی نکاح اور اسی طرح کی چند ایک خبروں کے بڑی حد تک پوری ہوئیں ۔ ان کی جماعت بھی روز بروز ترقی پر ہے اور اس میں اپنے مزعومات کے لیے بڑا جوش اور ایثارپایا جاتا ہے۔ یہ ساری چیزیں خلجان میں ڈالتی ہیں ۔میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے اطمینان قلب کی خاطر اس مسئلے کی ایسی وضاحت کردیں جس سے تردّد اور پریشانی رفع ہوجائے اور حق وباطل کے مابین واضح امتیاز قائم ہوجائے ۔
جواب

آپ نے مرزاغلام احمد صاحب کے معاملے میں خلجان کے جو وجوہ بیان کیے ہیں ،ان کو درحقیقت کوئی بنیادی اہمیت حاصل نہیں ہے اور نہ ایک مدعی نبوت کا دعویٰ ان بنیادوں پر کبھی جانچا جاسکتا ہے۔لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر اس سے بھی زیادہ قوی وجوہ ان کے دعوے کو قابل غور سمجھنے کے لیے موجود ہوتے تب بھی وہ التفات کامستحق نہ تھا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید اور حدیث،دونوں کی رو سے نبوت کا معاملہ دین میں اساسی حیثیت رکھتا ہے ۔یعنی اس پر آدمی کے کفر وایمان کا مدار اور آخرت میں اس کی فلاح وخسران کا انحصار ہے۔ اگر آدمی ایک سچے نبی کو نہ مانے تو کافر، اور جھوٹے نبی کو مان لے تو کافر۔ اس طرح کی اہمیت اور نزاکت رکھنے والے کسی معاملے کو بھی اﷲ اور اس کے رسولؐ نے مبہم اور پیچیدہ اور مشکوک نہیں رکھا ہے، بلکہ صاف اور واضح طریقے سے راہ نمائی دی ہے تاکہ انسان کا دین وایمان خطرے میں نہ پڑے اور اُ س کے گمراہ ہونے کی ذمہ داری اﷲ اور اس کے رسولؐ پر عائد نہ ہو۔ اب دیکھیے، محمدﷺ سے پہلے کبھی کسی نبی کے زمانے میں یہ نہیں کہا گیا کہ نبوت کا سلسلہ بند ہوگیا ہے اور اب کوئی نبی آنے والا نہیں ہے۔ اس کے معنی یہ تھے کہ انبیا کی آمد کا دروازہ اس وقت تک کھلا ہوا تھا، کوئی شخص اس بنیاد پر کسی مدعی نبوت کا انکار کردینے میں حق بجانب نہ تھا کہ اب کسی نبی کے آنے کا امکان ہی نہیں ہے۔پھر اس زمانے میں انبیا؊ اپنے بعد آنے والے نبیوں کی آمد کے لیے پیش گوئی بھی کرتے رہتے تھے اور اپنے پیرووں سے عہد لیتے تھے کہ بعد میں جو نبی آئیں ،ان کی بھی وہ پیروی کریں گے۔ یہ چیز اور بھی اس بات کو مؤکد کردیتی تھی کہ جو شخص نبی کی حیثیت سے اپنے آپ کو پیش کرے، اسے بلا تأمل ردّ نہ کردیا جائے بلکہ اس کی دعوت اور شخصیت اور اس کے کام اور احوال کو بنظر غائر دیکھ کر جاننے کی کوشش کی جائے کہ آیا وہ واقعی نبی ہے یا جھوٹا مدعی نبوت ہے۔ لیکن محمد ﷺ کی آمد کے بعد یہ معاملہ بالکل اُلٹ ہوگیا۔ اب صرف یہی نہیں کہ آں حضرت ﷺ نے کسی نبی کی آمد کی پیش گوئی نہیں کی اور نہ اپنی اُمت سے اس کے اتباع کا عہد لیا،بلکہ اس کے برعکس قرآن میں اعلان کیا گیا کہ آں حضورﷺ خاتم النّبیین ہیں ، اور آں حضور ﷺسے ایک دو نہیں بلکہ متعدد حدیثیں نہایت واضح اور غیر مبہم الفاظ میں بکثرت مستند ومعتبر واسطوں سے اُمت کو ملیں کہ اب نبوت کا دروازہ بند ہے،اب کوئی نبی آنے والا نہیں ،اب جو مدعی نبوت اُٹھیں گے، وہ دجّال ہوں گے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اب اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نگاہ میں لوگوں کے کفر وایمان کا معاملہ اتنا نازک اور اہم نہیں رہا؟کیا حضورﷺ سے پہلے ہی کے مومنین اس کے مستحق تھے کہ انھیں کفر کے خطرے میں مبتلا ہونے سے بچانے کے لیے اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول واضح طور پر باب نبوت کے مفتوح ہونے اور انبیا کی آمد کے متعلق خبریں دینے کا اہتمام فرماتے رہے، مگر اب ہمیں انھوں نے جان بوجھ کر اس خطرے میں مبتلا کیا ہے کہ ایک طرف تو نبی کے آنے کا امکان بھی ہو جس کے ماننے یا نہ ماننے پر ہمارے کافر یا مومن ہونے کا انحصار ہے، اور دوسری طرف اﷲ اور اس کے رسول نے صرف اتنے پر ہی اکتفا نہ کیا ہو کہ ہمیں اس کی آمد سے آگاہ نہ کیا بلکہ اس سے گزر کرپے دَرپے وہ ایسی باتیں ارشاد فرماتے چلے گئے جن کی بناپر ہم باب نبوت کو بند سمجھیں اور مدعی نبوت کو ماننے سے انکار کردیں ؟ کیا آپ کی عقل میں یہ بات آتی ہے کہ اﷲ اور اس کے نبیؐ واقعی ہم سے ایسی دھوکا بازی کرسکتے ہیں ؟
خاتم النّبیین کے معنی کی جو تأویل بھی قادیانی چاہیں کرتے رہیں ، مگر کم ازکم ایک بات سے تو کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ اس کے معنی سلسلۂ نبوت کو ختم کرنے والے کے بھی ہوسکتے ہیں اور اُمت کے ننانوے لاکھ ننانوے ہزارنو سو ننانوے فی کروڑ علما اور عوام اس کے یہی معنی لیتے رہے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ نبوت جیسے نازک معاملے میں ، جس پر مسلمانوں کے کفر وایمان کا مدار ہے، کیا اﷲ تعالیٰ کو ایسی ہی زبان استعمال کرنی چاہیے تھی جس سے چند قادیانیوں کے سوا ساری اُمت یہی سمجھے کہ اب کوئی نبی آنے والا نہیں ہے؟اور نبی ؐکے اپنے ارشادات تو کسی تأویل کی گنجائش بھی نہیں چھوڑتے۔ان میں تو صاف صاف مختلف طریقوں سے اس بات کو کھول کر ہی کہہ دیا گیا ہے۔ ({ FR 1714 }) کیا اﷲ کے رسو ل کو ہم سے ایسی ہی دشمنی تھی کہ نبی تو آپؐ کے بعد آنے والا ہو اور آپؐ ہمیں الٹی یہ ہدایت دے جائیں کہ ہم اسے نہ مانیں اور کافرہوکر جہنم میں جائیں ؟
ان امور پر اگر آپ غور کریں تو آپ کو اطمینان ہوجائے گا کہ فی الواقع نبوت کا دروازہ بند ہے اور اب کسی نبی کے آنے کا امکان نہیں ہے۔اس صورت میں کوئی شخص چاہے کیسی ہی بھولی بھالی دل موہنے والی صورت رکھتا ہو اور خواہ اس کی پیشین گوئیاں سوفی صد درست ہوں اور خواہ اس کے کارنامے کیسے ہی ہوں ،ہم اس کے دعواے نبوت کو قابل غور بھی نہیں سمجھتے، کیوں کہ یہ چیزیں غور طلب اسی صورت میں ہوسکتی تھیں جب کہ نبی کی آمد کا امکان ہوتا۔ ہم تو پورے اطمینان کے ساتھ ہر مدعی نبوت کے دعوے کو سنتے ہی اس کی تکذیب کریں گے اور اس کے دلائل نبوت پر سرے سے کوئی توجہ نہ دیں گے۔ یہ اگر کفر بھی ہو تو ہم پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ،کیوں کہ ہمارے پاس قیامت کے روز اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے قرآن اور ارشادات رسول ﷺ موجود ہیں ۔ (ترجمان القرآن،دسمبر۱۹۵۹ء)