خواتین اور زیارت ِ قبور

عورتوں کے قبرستان جانے کا کیا حکم ہے؟ عموماً لوگ انھیں قبرستان جانے سے روکتے ہیں ۔ بعض حضرات حرام قرار دیتے ہیں ۔ میں سوچتی ہوں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے زیارت ِ قبور کی ترغیب دی ہے اور فرمایا ہے کہ اس سے دلوں میں رقّت پیدا ہوتی اور آخرت کی یاد آتی ہے۔ تو اس سے عورتوں کو کیوں محروم رکھا جائے؟ بہ راہ کرم احادیث ِ نبوی کی روشنی میں وضاحت فرمائیں کہ کیا عورتوں کے لیے قبرستان جانے کی بالکلیہ ممانعت ہے؟
جواب

ابتدا میں آں حضرتﷺ نے اپنے اصحاب کو زیارت ِ قبور سے مطلق منع فرمادیا تھا ۔ اس لیے کہ ان کا جاہلیت کا زمانہ قریب تھا۔ اس بنا پر ان کے شرک و بدعات میں مبتلا ہونے کا اندیشہ تھا۔ لیکن جب انھوں نے دین کو اچھی طرح سمجھ لیا اور توحید اور شرک و بدعات کے حدود سے خوب واقف ہوگئے تو آپ نے انھیں اس کی اجازت دے دی۔ حضرت بریدہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
نَھَیْتُکُمْ عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُوْرِ، فَزُوْرُوْھَا۔
(صحیح مسلم، کتاب الجنائز، حدیث: ۹۷۷، سنن ابی داؤد کتاب الجنائز، باب فی زیارۃ القبور، حدیث: ۳۲۳۵، جامع ترمذی، ابواب الجنائز، باب ماجاء فی الرخصۃ فی زیارۃ القبور، حدیث: ۱۰۵۴، سنن النسائی، کتاب الجنائز، باب زیارۃ القبور، حدیث: ۲۰۳۲)
’’میں نے پہلے تم لوگوں کو زیارت قبور سے روکا تھا، اب تم ایسا کرسکتے ہو۔‘‘
ترمذی کی روایت میں ہے کہ ساتھ ہی آپؐنے یہ بھی فرمایا:
فَاِنَّھَا تُذَکِّرُکُمُ الْآخِرَۃَ۔
’’اس لیے کہ زیارت ِ قبور سے آخرت کی یاد تازہ ہوگی۔‘‘
حدیث ِ بالا کا خطاب عام ہے۔ اس میں مرد و عورت کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ لیکن بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آں حضرت محمد ﷺ نے عورتوں کو زیارت ِ قبور سے روکا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں :
اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ لَعَنَ زَائِرَاتِ الْقُبُوْرِ۔
(سنن ابی داؤد، کتاب الجنائز، باب فی زیارۃ النساء للقبور، حدیث: ۳۲۳۶، جامع ترمذی، ابواب الصلاۃ، باب ماجاء فی کراھیۃ ان یتخذ علی القبر مسجداً، حدیث: ۳۲۰، سنن النسائی، کتاب الجنائز، باب التغلیظ فی اتخاذ السرج علی القبور، حدیث: ۲۰۴۳)
’’اللہ کے رسول ﷺ نے زیارت ِ قبور کے لیے جانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘
ترمذی کی ایک دوسری روایت میں جو حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے، زائرات کی جگہ ’زوّارات‘ (یعنی کثرت سے زیارت ِ قبور کے لیے جانے والی عورتیں ) کا لفظ ہے۔(کتاب الجنائز، باب ماجاء فی کراھیۃ زیارۃ القبور للنساء، حدیث: ۱۰۵۶)
عورتوں سے متعلق ان احادیث کی وجہ سے بعض علماء نے ان کے لیے زیارت ِ قبور کو مکروہ قرار دیا ہے۔ لیکن بعض دیگر علماء مردوں کی طرح عورتوں کے لیے بھی زیارت ِ قبور کی اجازت دیتے ہیں ۔ (ملاحظہ کیجیے الموسوعۃ الفقہیۃ،۲۴/۸۸) ان کا استدلال درج ذیل احادیث سے ہے:
(۱) حضرت عبد اللہ بن ابی ملیکہؒ فرماتے ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہؓ ایک مرتبہ قبرستان سے واپس آئیں ۔ میں نے عرض کیا: اے ام المومنین، آپ کہاں سے تشریف لا رہی ہیں ؟ فرمایا: اپنے بھائی عبد الرحمن کی قبر کے پاس سے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ نے تو زیارت ِ قبور سے منع کیا ہے۔ فرمایا: ہاں پہلے آپؐ نے منع کیا تھا، لیکن بعد میں اس کی اجازت دے دی تھی۔ اس روایت کو حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے اور ذہبی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
(۲) ام المومنین حضرت عائشہؓ سے ایک طویل حدیث مروی ہے، جس کے آخر میں ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺسے دریافت کیا: میں قبرستان جاؤں تو وہاں کیا کہوں ؟ آں حضرت ﷺ نے انھیں دعا سکھائی۔ (صحیح مسلم، کتاب الجنائز، باب ما یقال عند دخول المقابر، حدیث: ۲۷۴، سنن النسائی کتاب الجنائز، باب الامر بالاستغفار للمومنین، حدیث: ۲۰۳۷)
(۳) حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت اپنے بچے کی قبر پر بیٹھی رو رہی تھی۔ وہاں سے اللہ کے رسول ﷺ گزرے تو آپؐنے فرمایا: ’’اللہ سے ڈرو اور صبر کرو۔‘‘ اس نے کہا: آپ کو میری مصیبت کا کیا اندازہ! بعد میں اس عورت کو بتایا گیا کہ یہ اللہ کے رسول ﷺ تھے تو وہ بہت گھبرائی۔ آپ کی خدمت میں حاضرہوئی اور معذرت کرنے لگی کہ میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔آپؐ نے فرمایا:
اِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْاُوْلٰی۔ (صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب زیارۃ القبور، حدیث: ۱۲۸۳، صحیح مسلم، کتاب الجنائز، باب فی الصبر علی المصیبۃ عند الصدمۃ الاولٰی، حدیث: ۹۲۶)
’’صبر تو حادثہ کے وقت قوت ِ برداشت کا نام ہے۔‘‘
علامہ ابن تیمیہؒ نے اس موضوع پر مفصل بحث کی ہے۔ انھوں نے علماء کے اختلافات ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بعض علماء کے نزدیک عورتوں کے لیے زیارت ِ قبور کی اجازت ہے۔ لیکن خود ابن تیمیہؒ نے اپنا نقطۂ نظر اس کے برخلاف پیش کیا ہے اور اس کے دلائل دیے ہیں ۔
(ملاحظہ کیجیے فتاویٰ ابن تیمیہ، ۲۴/۳۴۳-۳۵۶)
علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں : ’’حدیث میں زیارت ِ قبور کرنے والی، جن عورتوں پر لعنت بھیجی گئی ہے ان سے مراد وہ عورتیں ہیں ، جو کثرت سے ایسا کرتی ہیں ۔ اس لیے کہ اس سے حقوقِ زوجیت کی پامالی، بے پردگی، رونا پیٹنا اور دیگر مفاسد پیدا ہوتے ہیں ۔ اس بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ اگر یہ مفاسد نہ ہوں تو عورتوں کے لیے زیارت ِ قبور کی اجازت میں کوئی مانع نہیں ہے۔ اس لیے کہ زیارت ِ قبور کا ایک فائدہ یہ بتایا گیا ہے کہ اس سے موت کی یاد تازہ ہوتی ہے اور اس کی مردوں اور عورتوں دونوں کو ضرورت ہے۔‘‘
علامہ شوکانیؒ علامہ قرطبیؒ کی اس تشریح و تطبیق پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’عورتوں کے لیے زیارت ِ قبور کے موضوع پر بہ ظاہر متعارض احادیث کے درمیان اس انداز سے جمع و تطبیق مناسب ہے۔‘‘ (ملاحظہ کیجیے فقہ السنۃ، السید سابق، ۱/۵۶۶-۵۶۷)
اس تفصیل سے واضح ہے کہ عبرت و موعظت، رقت قلب، موت اور آخرت کی یاد دہانی کے مقصد سے خواتین کبھی کبھی قبرستان جاسکتی ہیں ۔ البتہ جنازہ کے ساتھ ان کا قبرستان جانا ممنوع ہے۔ حضرت ام عطیہؓ فرماتی ہیں :
نُھِیْنَا عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ، وَلَمْ یُعْزَمْ عَلَیْنَا۔(صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب اتباع النساء الجنازۃ، حدیث: ۱۲۷۸، صحیح مسلم کتاب الجنائز، باب نھی النساء عن اتباع الجنائز، حدیث: ۹۳۸)
’’ہمیں جنازہ کے ساتھ جانے سے منع کیا گیا ہے لیکن اس معاملے میں سختی نہیں کی گئی ہے۔ ‘‘
اس سلسلے میں فیصلہ کن بات وہ ہے، جو علامہ ابن تیمیہؒ نے فقہاء کے حوالے سے کہی ہے کہ ’’اگر کسی عورت کو اپنے بارے میں یہ اندیشہ ہو کہ اگر وہ قبرستان جائے گی تو اس کے منہ سے غلط باتیں یا غلط حرکتیں سرزد ہوسکتی ہیں تو اس کا قبرستان جانا بلا اختلاف ناجائز ہے۔‘‘
(فتاویٰ ابن تیمیہ، ۳۴/۳۵۶)