دواؤں میں حرام اشیا کی ملاوٹ

بعض دوائوں کے اجزا انسانی یا حیوانی پیشاب،خون یا گوشت سے حاصل کیے جاتے ہیں ،اور بعض دوائیں وہیل مچھلی کے غدود سے نکالی جاتی ہیں ۔ایسی دوائوں کا استعمال شرعاًجائز ہے یا نہیں ؟
جواب

مختلف حیوانی دوائوں کے بارے میں جو سوالات آپ نے کیے ہیں ،ان کا جواب یہ ہے کہ اُصولاً ہر وہ چیز حرام ہے جو مردار یا حرام جانور سے حاصل کی جائے،یا حلال جانور کی کسی ناپاک یا حرام چیز سے حاصل کی جائے، اور اُصولاً ایک حرام چیز کا استعمال صرف اسی صورت میں جائز ہوسکتا ہے جب کہ انسانی جان بچانے کے لیے ناگزیر ہو۔ ان دو اُصولوں کو مدنظر رکھ کر مسلمان اہل فن کو دوائوں کا جائزہ لینا چاہیے اور پھر خود راے قائم کرنی چاہیے،کیوں کہ اپنے فن کو وہ آپ ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں ۔مگرمصیبت یہ ہے کہ مسلمانوں میں اس وقت جو اہل فن پائے جاتے ہیں ،وہ نہ محقق، موجد اور مکتشف ہیں اور نہ دوا سازی کی صنعت ہی ان کے ہاتھ میں ہے۔ان کی فن دانی اس سے آگے نہیں جاتی کہ دوسروں نے (اور یہ دوسرے وہ ہیں جو عملاً کسی کتاب الٰہی اور کسی شریعت نبوی کے پیرونہیں ہیں )جو کچھ اپنی تحقیق واکتشاف سے نکالا ہے،صرف اس سے واقف ہوجائیں ،اور پھر وہی لوگ جو کچھ جس طرح بنا کر بھیج دیں ، اسے یہ استعمال کرلیں ۔ یہ بے چارے اس قابل بھی نہیں ہیں کہ انھوں نے اگر کسی مرض کی دوا حرام طریقے سے پیدا کی ہے تو یہ اپنی تحقیق سے اس کا کوئی دوسرا جائز بدل پیدا کرسکیں ،یا محققانہ طریقے پر کم ازکم یہی کہہ سکیں کہ اس کا بدل نہیں مل سکتا اور اس کا استعمال فی الواقع ناگزیر ہے۔اس حالت میں ہم غیرفنی لوگ محض حلال وحرام کی بحث کرکے آخرکیامفیدخدمت کرسکتے ہیں ؟
وہیل مچھلی جائز ہے۔اسی قسم کی۱یک مچھلی صحابۂ کرامؓ ایک جنگی سفر کے دوران میں کھا چکے ہیں اور نبیﷺ نے اسے جائز رکھا ہے۔({ FR 1554 }) (ترجمان القرآن، مئی،جون۱۹۵۳ء)