دہریّت ومادّہ پرستی اور قرآن

آپ نے اپنی کتاب ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ‘‘ میں اصطلاحاتِ اربعہ کے جو معانی بیان کیے ہیں ،ان سے جیسا کہ آپ نے خودذکر فرمایا ہے، یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ دنیا میں کوئی قوم ایسی نہ تھی جس کی طرف نبی بھیجا گیا ہو اوراس نے اسے خدا کی ہستی کو تسلیم کرنے یا خداکو الٰہ وربّ بمعنی خالق ورازق ماننے کی دعوت دی ہو، کیوں کہ ہرقوم اﷲکے فاطر وخالق ہونے کا اعتقاد رکھتی تھی۔اِ س سے بظاہر یہ شبہہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں میں منکرینِ خدا یعنی مادّہ پرست ملحدین اور دہریوں کا گروہ ناپید تھا،حالاں کہ بعض آیات سے ان لوگوں کا پتا چلتا ہے۔ مثلاً: مَا ہِىَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوْتُ وَنَحْيَا وَمَا يُہْلِكُنَآ اِلَّا الدَّہْرُ۝۰ۚ (الجاثیۃ:۲۴) ’’بس ہماری زندگی تو یہی دنیاکی زندگی ہے کہ مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور یہ زمانہ(یعنی نظمِ فطرت) ہی ہمیں ہلاک کرنے والا ہے۔‘‘ نیز موسیٰ ؑ وفرعون اور نمرود وابراہیم ؑ کے مذاکروں میں بعض آیات اس امر پر صریح الدلالت ہیں کہ یہ دونوں مادّہ پرست دہریہ تھے۔مثلاً: اَفِي اللہِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ ( ابراھیم:۱۰) ’’کیا خدا کے وجود میں بھی کوئی شک وشبہہ ہے جو موجدِ ارض وسما ہے؟‘‘ پھر دوسری آیت ہے: اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ اَمْ ہُمُ الْخٰلِقُوْنَ (الطور:۳۵) ’’کیا وہ بدون کسی خالق کے آپ سے آپ پیدا ہوگئے یا وہ خود خالق ہیں ؟‘‘ آپ نے دوسری آیات سے استدلا ل کرتے ہوئے ان آیتوں کی جو توجیہہ کی ہے،اس میں اختلاف کی گنجائش ہے، کیوں کہ ان آیاتِ متمسک بہا کی دوسری توجیہیں ہوسکتی ہیں ۔
جواب

میں نے جہاں تک قرآن مجید کا مطالعہ کیا ہے اور جس حد تک تاریخی معلومات میرے سامنے ہیں ، ان دونوں سے یہ بات مجھے قریب بہ یقین معلوم ہوتی ہے کہ دنیا میں کبھی کوئی قوم یا کوئی ہیئت ِ اجتماعی(community) ایسی نہیں گزری ہے جو بحیثیت ِ مجموعی خدا کی منکر اور دہریہ رہی ہو۔افراد اور چھوٹے چھوٹے فلسفیانہ گروہ ایسے ضرور ہیں ، لیکن وہ اتنے قابل ِ لحاظ نہ تھے کہ براہِ راست ان کو خطاب کرنے کے لیے کوئی نبی بھیجا جاتا یا کتاب نازل کی جاتی۔اسی لیے قرآن مجید میں ایسے گروہوں کے متعلق کہیں کہیں مختصر اشارات تو ضرور کیے گئے ہیں لیکن دعوت کا براہِ راست خطاب مشرکین ہی کی طرف رہا ہے اور عموماً توحید پر جو دلائل دیے گئے ہیں وہ اس انداز سے دیے گئے ہیں کہ شرک کے ابطال کے ساتھ دہریت کا ابطال بھی انھی سے ہوجاتا ہے، اس کے خلاف الگ دلائل قائم کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔
فرعون اور نمرود کے متعلق آپ نے جو کچھ لکھا ہے وہ محض قیاس سے لکھا ہے۔معتبرمعلومات اس کے خلاف ہیں ۔آج ارضِ بابل اور ارضِ مصردونوں کے متعلق آثارِ قدیمہ کی کھدائیوں سے نہایت مفصل معلومات حاصل ہوچکی ہیں اور ان سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ فراعنہ اور فرماں روایانِ بابل دونوں ہی پروہت راجا(priest kings)تھے۔ جن الہٰوں کی پرستش ان کی قوم میں ہوتی تھی،ان کویہ دونوں نہ صرف یہ کہ معبود مانتے تھے بلکہ یہی فرماں روا ان کے مہا پجاری (chief priests) ہوتے تھے اور انھیں ان آلہہ کے نمائندے ہونے کی حیثیت سے مانا جاتا تھا۔اسی کی تصدیق قرآن کے بیان سے بھی ہوتی ہے۔ اور یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ یہ لوگ اس معنی میں دہریے نہیں تھے جس معنی میں آج کل یہ لفظ بولا جاتا ہے۔
(ترجمان القرآن،مارچ۱۹۴۶ء)