رسول اﷲ ﷺ کی میراث کا مسئلہ

باغ فد ک کے مسئلے پر آپ کی تحقیق کیا ہے ؟اس کو اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے جیسے حضرت سیّدہ فاطمہ ؓ پر ظلم کیا گیا۔ کیا آں حضورؐ کی میراث میں سے حضرت فاطمہ ؓ کا حق نہ دینا خلیفۂ اوّل ودوم کے لیے درست تھا؟
جواب

باغ فَدَک کے مسئلے پر بحث کرنے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا سرکار رسالت مآبؐ کے پاس آپ کی وفات کے وقت کوئی ذاتی جائداد تھی بھی کہ اس میں میراث جاری ہوتی؟یہ بات سب کو معلوم ہے کہ نبوت کے منصب پر سرفراز ہونے کے بعد حضورﷺ کا تمام وقت دعوتِ حق کے کام پر صرف ہونے لگا تھا اور کاروبار تجارت بند ہوچکا تھا۔مکہ معظمہ میں جب تک قیام رہا، اس اثاثے پر گزر بسر ہوتی رہی جو آپ ؐ کے اور حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے پاس پہلے کا بچا بچایا موجود تھا۔ ہجرت فرمائی تو گویا دامن جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے او رمدینہ طیبہ پہنچ کر آپ بالکل بے سروسامان تھے۔ ابتدائی زمانہ انتہائی عسرت اور تنگ دستی کے ساتھ گزرا۔ پھر جب غزوات کا سلسلہ شروع ہوا تو اﷲ تعالیٰ نے اموال غنیمت میں سے پانچواں حصہ نکالنے کا حکم دیا، اور رسول اﷲﷺ کو یہ حق عطا فرمایا کہ جس قدر مناسب سمجھیں اور ضرورت محسوس فرمائیں ، اپنی ذات پر اور اپنے قرابت داروں کی حاجات پر صَرف کرنے کے لیے اس حصے میں سے لے لیا کریں ، باقی اﷲ کے کام میں اور یتامٰی، مساکین اور مسافروں کی خبر گیری میں صَرف فرمائیں ۔
وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلہِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ
(الانفال:۴۱)
’’اور تمھیں معلوم ہو کہ جو کچھ مالِ غنیمت تم نے حاصل کیا ہے اس کا پانچواں حصہ اللّٰہ اور اس کے رسول اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔‘‘
یہ پہلا ذریعۂ معاش تھا جو آپؐ کو عطا کیا گیا۔
اس کے بعد ہجرت کے چوتھے سال اﷲ تعالیٰ نے مدینہ کے یہودی قبیلے بنی النضیر پر آپﷺ کو فتح عطا فرمائی اور وہ اپنی جائدادیں چھوڑ کر شہر سے چلے گئے۔اس وقت یہ آیت نازل ہوئی:
وَمَآ اَفَاۗءَ اللہُ عَلٰي رَسُوْلِہٖ مِنْہُمْ فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَيْہِ مِنْ خَيْلٍ وَّلَا رِكَابٍ وَّلٰكِنَّ اللہَ يُسَلِّطُ رُسُلَہٗ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَاللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌo مَآ اَفَاۗءَ اللہُ عَلٰي رَسُوْلِہٖ مِنْ اَہْلِ الْقُرٰى فَلِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۝۰ۙ كَيْ لَا يَكُوْنَ دُوْلَۃًۢ بَيْنَ الْاَغْنِيَاۗءِ مِنْكُمْ (الحشر:۶،۷)
’’اور جو کچھ دلوایا اﷲ نے ان سے اپنے رسو ل کو، نہیں دوڑائے اس پر تم نے گھوڑے اور اونٹ، مگر اﷲ مسلط کردیتا ہے اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے، اور اﷲ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ جو کچھ دلوادے اﷲ( اس طریقے پر) اپنے رسول کو بستیوں کے لوگوں سے تو وہ اﷲ کے لیے ہے اور رسول کے لیے اور قرابت داروں اور یتامٰی اور مساکین اور مسافروں کے لیے تاکہ یہ مال تمھارے دولت مندوں ہی کے درمیان نہ گردش کرتا رہے۔‘‘
اس آیت کی رو سے اﷲ تعالیٰ نے ان تمام اموال،جائدادوں اور علاقوں کو جو براہِ راست جنگی کارروائی کے ذریعے سے فتح نہ ہوئے ہوں بلکہ اسلامی حکومت کے رُعب اور دبدبے سے مسخر ہوجائیں ،غنیمت سے الگ کرکے حکومت کی ملک قرار دے دیا اور رسول اﷲ ﷺ کو یہ حق عطا فرمایا کہ وہ اپنی اور اپنے قرابت داروں کی ضروریات کے لیے اس سرکاری مال میں سے جس قدر مناسب سمجھیں لے لیں ۔
ان احکام کے مطابق حضور ﷺ نے مدینۂ طیبہ میں بنی النضیر کے چھوڑے ہوئے باغوں میں سے چند نخلستان،خیبر میں سے کچھ اراضی ،اور فَدَک میں سے کچھ اراضی اپنے لیے مخصوص کرلی تھی۔ اس جائداد کی آمدنی سے حضور ﷺ اپنی اور اپنے اہل وعیال کی ضروریات پوری کرتے تھے، اپنے قرابت داروں کی مدد فرماتے تھے، اور جو کچھ بچتا تھا، اسے اﷲ کی راہ میں صرف فرما دیتے تھے۔
غور کیا جائے تو صاف سمجھ میں آجاتا ہے کہ ان دونوں ذرائع(غنیمت اور فے) سے جو کچھ حضور ﷺ کو عطا کیا گیا،اس کی نوعیت یہ نہیں تھی کہ آپؐ نے اپنے ذاتی کاروبار سے کوئی جائداد پیدا کی ہو اور وہ آپؐ کے بعد بھی آپؐ کی ملک رہے اور آپؐ کے وارثوں میں تقسیم ہو،بلکہ اس کی نوعیت یہ تھی کہ آپﷺ اسلامی حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے اپنا سارا وقت سرکاری کام پر صرف فرماتے تھے اور اپنا کوئی ذاتی ذریعۂ معاش نہ رکھتے تھے،اس لیے آپﷺ کو یہ حق عطا فرمایا گیا کہ حکومت کی املاک میں سے اتنی جائداد اپنے تصرف میں رکھیں جس سے آپؐ کی ضروریات پوری ہو سکیں ۔ ظاہر ہے کہ اﷲ کے رسولؐ نے نبوت کا یہ کار ِعظیم اپنے لیے جائدادیں اور جاگیریں پیدا کرنے کے لیے تو نہیں کیا تھا۔ یہ تو ایک خدمت تھی جو خالص اﷲ کے لیے آپؐ انجام دے رہے تھے اور اس کا اجر اﷲ ہی کے ذمے تھا۔ریاست کے مال میں آپ کا حصہ بس اتنا تھا کہ آپؐ اپنے نفس کے اور اپنے اہل وعیال اور حاجت مند قرابت داروں کے حقوق ادا کرسکیں ۔یہ حصہ آپؐ کی حیات طیبہ تک ہی باقی رہ سکتا تھا۔آپؐ کی وفات کے بعد اس کو ذاتی املاک کی طرح وارثوں میں تقسیم کرنے کی کوئی وجہ نہ تھی۔اس بات کو حضورﷺ نے خود اپنی زندگی ہی میں صاف کردیا تھا:
لَا يَقْتَسِمُ وَرَثَتِي دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا، مَا تَرَكْتُ بَعْدَ نَفَقَةِ نِسَائِي وَمَئُونَةِ عَامِلِي فَهُوَ صَدَقَةٌ ({ FR 1686 })
’’میرے وارث کوئی دینار ودرہم آپس میں تقسیم نہ کریں ۔ میں نے جو کچھ چھوڑا ہے،میری بیویوں کا نفقہ اور میرے عامل کا حق الخدمت ادا کرنے کے بعد وہ سب صدقہ ہے۔‘‘
لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ، إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ مِنْ هَذَا الْمَالِ، يَعْنِي مَالِ اللَّهِ لَيْسَ لَهُمْ أَنْ يَزِيدُوا عَلَى الْمَأْكَلِ({ FR 1687 })
’’ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا،جو کچھ ہم نے چھوڑا وہ صدقہ ہے۔محمدؐ کے گھر والے تو اس مال میں سے بس کھالیتے ہیں ۔کھانے بھر سے زیادہ لینے کا انھیں حق نہیں ہے۔‘‘
إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا أَطْعَمَ نَبِيًّا طُعْمَةً ثُمَّ قَبَضَهُ جَعَلَهُ لِلَّذِي يَقُومُ مِنْ بَعْدِهِ({ FR 1688 })
’’اﷲ عزو جل کسی نبی کو بسر اوقات کے لیے جو کچھ دیتا ہے وہ اس کی وفات کے بعد اس شخص کے حوالے کردیتا ہے جو اس کا جانشین ہو۔‘‘
اس مال کے متعلق حضور ﷺکی یہ ہدایات کچھ خفیہ نہ تھیں بلکہ تمام جلیل القدر صحابہ ؓ ان کو جانتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر ؓہی تنہا ان کے راوی نہیں ہیں ۔ حضرت علی ؓ، حضرت عباسؓ، حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ، حضرت سعدبن ابی وقاصؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت ابو ہریرہ ؓاور تمام ازواجِ مطہراتؓ کی یہ شہادت نہایت مستند روایات سے ہم تک پہنچی ہے کہ حضور ﷺ نے اپنے ترکے کی یہی نوعیت بیان فرمائی تھی۔ اس فرمان مبارک کے ہوتے ہوئے کون شخص یہ تصور کرسکتا ہے کہ حضورؐ کے خلفا آپؐ کی چھوڑی ہوئی جائداد کے معاملے میں کوئی دوسرا فیصلہ کرنے کے مجاز ہوسکتے تھے۔
اب دیکھیے کہ حضور ﷺ کی وفات کے بعد مطالبۂ میراث کس طرح اٹھا اور آپؐ کے خلفا نے اس پر اپنے اپنے زمانوں میں کیا کارروائی کی۔ شرعی قاعدے کے مطابق میراث کامطالبہ کرنے کے حق دار تین فریق ہوسکتے ہیں ۔ایک سیّدہ حضرت فاطمۃالزہرائؓ، بیٹی کی حیثیت سے، دوسرے حضرت عباس ؓ چچا کی حیثیت سے ،تیسرے جملہ ازواج مطہراتؓ بیویوں کی حیثیت سے۔ ان میں سے پہلے دو فریقوں یعنی سیّدہ فاطمہ اور حضرت عباس ؆نے حضرت ابو بکرؓ کے خلیفہ مقرر ہونے کے فوراً بعد خیبر، فَدَک اور مدینہ طیبہ کی اس تمام جائداد کے متعلق، جو حضورؐ کے تصرف میں تھی، اپنا دعویٰ پیش کیا۔ اور بعض روایات کے مطابق حضرت فاطمہ ؓ نے استدلا ل کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ جب تمھاری وفات کے بعد تمھارا ترکہ تمھارے اہل وعیال ہی میں تقسیم ہونا ہے تو آخرمیرے باپ(ﷺ) کی وفات کے بعد ان کے ترکے میں سے مجھے کیوں میراث نہ ملے؟ اس کے جواب میں حضرت ابوبکرؓنے جو کچھ فرمایا،وہ یہ تھا:
إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ [۔۔۔] وَقَالَ لَسْتُ تَارِكًا شَيْئًا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْمَلُ بِهِ إِلَّا عَمِلْتُ بِهِ فَإِنِّي أَخْشَى إِنْ تَرَكْتُ شَيْئًا مِنْ أَمْرِهِ أَنْ أَزِيغَ ({ FR 1689 })
’’رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ہے کہ ہماری وراثت جاری نہیں ہوتی، جو کچھ ہم نے چھوڑا وہ صدقہ ہے۔[...] پھر حضرت ابو بکرؓ نے کہا کہ میں کوئی ایسا کام نہ رہنے دوں گا جو رسول اﷲ ﷺ کرتے تھے اورمیں وہ نہ کروں ، کیوں کہ مجھے ڈر ہے کہ اگرمیں نے آپؐ کے اوامر میں سے کسی کو بھی چھوڑ دیا تو گمراہ ہوجائوں گا۔‘‘
وَلَكِنِّ أَعُولُ مَنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُولُهُ وَأُنْفِقُ عَلَى مَنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَيْهِ({ FR 1690 }) ’’مگر میں ان سب لوگوں کی عیال داری کروں گا جن کی عیال داری رسول اللّٰہ ﷺ کرتے تھے، اور ان سب لوگوں پر خرچ کروں گا جن پر حضورؐ خرچ فرمایا کرتے تھے۔‘‘
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي({ FR 1691 })
’’خدا کی قسم! میرے لیے اپنے رشتہ داروں سے صلۂ رحمی کرنے کی بہ نسبت رسول اﷲؐ کے رشتہ داروں سے صلۂ رحمی کرنا زیادہ محبوب ہے۔‘‘
جناب سیّدہؓ اور حضرت عباس ؓ سے حضرت ابوبکر ؓ کی اس گفتگو کے متعلق جتنی مستند روایات ہم تک پہنچی ہیں ،ان میں سے کسی میں بھی یہ بات کہیں اشارتاً یا کنایتاً بھی مذکور نہیں ہے کہ جناب سیدہ ؓ یا حضرت عباس ؓ نے حضرت ابوبکرؓ کی یہ بات سن کرجواب میں فرمایا ہو کہ آپ نبیؐ کی طرف ایک غلط بات منسوب کررہے ہیں ۔ اور ظاہر بات ہے کہ جب حضورﷺ کی طرف اس فرمان کی نسبت صحیح تھی تو پھر خلیفۂ رسول کے لیے واجب العمل قانون اس کے سوا اور کوئی نہ ہوسکتا تھا جو رسول پاکؐ سے ثابت تھا۔ آخر اس فرمان کی زدصرف جناب سیّدہ اور حضرت عباس رضی اللّٰہ عنہما ہی کے مفاد پر تو نہ پڑتی تھی۔خو د خلیفہ کی اپنی صاحب زادی حضرت عائشہ ؓ کا مفاد بھی اسی کی لپیٹ میں آجاتا تھا۔ کیوں کہ وہ بھی اس کی بِنا پر اپنے شوہر کی میراث سے محروم ہوتی تھیں ۔ خلیفۂ برحق نے آخر انھی کو اس قانون سے کب مستثنیٰ کیا؟ ({ FR 1692 })
اب رہ گیا تیسرا فریق، یعنی ازواج مطہراتؓ کا گروہ،تو اس نے بھی ارادہ کیا تھا کہ حضرت عثمانؓ کو اپنا نمائندہ بناکر حضرت ابوبکرؓ کے پاس بھیجے اور حضورﷺ کے ترکے میں سے اپنے آٹھویں حصے کا مطالبہ کرے۔مگر حضرت عائشہ ؓ نے اس کی مخالفت کی اور تمام ازواج مطہراتؓ کو خطاب کرکے فرمایا:
أَلَا تَتَّقِينَ اللَّهَ، أَلَمْ تَعْلَمْنَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، يُرِيدُ بِذَلِكَ نَفْسَهُ، إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَالِ...({ FR 1693 })
’’کیا آپ اﷲ سے نہیں ڈرتیں ؟کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ رسول اﷲ ﷺ اپنے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ ہماری وراثت جاری نہیں ہوتی۔ جو کچھ ہم نے چھوڑا ہے وہ صدقہ ہے۔محمدؐ کے اہل وعیال تو بس اس مال میں سے کھا سکتے ہیں ۔حضرت عائشہ ؓ کی یہ بات سن کر سب ازواج مطہراتؓ اپنے دعوے سے دست بردار ہوگئیں ۔‘‘
ایک بات اس سلسلے میں یہ کہی جاتی ہے کہ فَدَک کے متعلق نبیﷺ نے اپنی زندگی میں یہ فیصلہ کردیا تھا کہ وہ حضرت فاطمہ ؓ کو دیا جائے گا۔جناب سیّدہ نے حضرت ابوبکرؓ سے خاص طورپر اسی کا مطالبہ کیا تھا اور شہادت میں حضرت علیؓ اور ام ایمنؓ کو پیش کیا تھا۔لیکن حضرت ابوبکرؓ نے ان کی شہادت قبول نہ کی اور فَدَک کی جائدادان کے حوالے کرنے سے انکارکردیا۔
مگریہ قصہ حدیث کی مستند روایات میں سے کسی میں بھی مذکور نہیں ہے۔البتہ بلاذری اور ابن سعد نے اسے نقل کیاہے اور ان کے بیان میں بھی کافی اضطراب ہے۔ ابن سعد کی روایت یہ ہے کہ حضرت فاطمہؓ نے یہ بات خود رسول اﷲ ﷺ سے نہیں سنی تھی بلکہ ام ایمنؓ سے سنی تھی اور ان ہی کو شہادت میں پیش کردیا۔بخلاف اس کے بلا ذُری کی روایت یہ ہے کہ جناب سیّدہ نے خود یہ دعویٰ کیا تھا کہ میرے والدؐ نے فَدَک مجھے دیا ہے۔پھر ایک روایت کی رو سے انھوں نے حضرت علیؓاور ام ایمنؓ کو شہادت میں پیش کیا، اور دوسری روایت کی رو سے ام ایمنؓ اور رباحؓ(نبیؐ کے آزاد کردہ غلام) کو۔({ FR 1694 })
یہ تو ہے اس قصے کی حیثیت باعتبار روایت۔ اب قانونی حیثیت سے دیکھیے تو حضور ﷺ کا یہ فعل یا تو ہبہ ہوسکتا تھا یا وصیت۔ اگر کہا جائے کہ ہبہ تھا، تو وہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب کہ حضور ﷺ نے اپنی زندگی ہی میں فَدَک کا قبضہ حضرت فاطمہ ؓ کودے دیا ہوتا۔ورنہ محض زبان سے کسی چیز کو کسی کے لیے نام زد کردینااور یہ نیت کرنا کہ وہ چیز مالک کے مرنے کے بعد معطیٰ لہ کو ملے گی،ہبہ نہیں بلکہ وصیت ہے۔اب اگر کہاجائے کہ یہ وصیت تھی، تو قرآن مجید میں میراث کا قانون نازل ہوجانے کے بعد آں حضرتﷺ خود یہ اعلان فرما چکے تھے کہ لَا وَصِیَّۃَ لَوَارِث({ FR 1695 }) ، ’’اب ترکے کی تقسیم کے معاملے میں کسی وارث کے حق میں وصیت نہیں کی جاسکتی۔‘‘پھر یہ کیسے باور کیا جاسکتا ہے کہ حضور ﷺ نے اپنے ہی اعلان کردہ قانون کے خلاف دوسرے وارثوں کو چھوڑ کر ایک خاص وارث کے حق میں کوئی وصیت فرمائی ہوگی۔
علاوہ بریں ہبہ یا وصیت کے سوال کو نظر انداز کرکے صرف اس شہادت ہی کو دیکھا جائے جو اس دعوے کے ثبوت میں پیش کی گئی تھی تو وہ صریح قرآنی قانون شہادت کے لحاظ سے ناکافی تھی۔ قرآن کی رو سے یا تو دو مردوں کی شہادت معتبر ہے یا ایک مرد اور دو عورتوں کی شہادت۔ جناب سیّدہ(اگر یہ قصہ درست مانا جائے) صرف ایک عورت، یا ایک مرد اور ایک عورت کی گواہی لائی تھیں ۔ اس صورت میں قانون کے خلاف فیصلہ کیسے کیا جاسکتا تھا؟ کیا شخصیتوں کو دیکھ کر شہادت کا شرعی نصاب بد ل دیا جاتا؟
اس کے بعد یہ مسئلہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں دوبارہ اٹھا۔ان کی خلافت پر دو سال گزر چکے تھے کہ حضرت عباس اور حضرت علی ؆ نے ان کے سامنے رسول اﷲ ﷺ کے ترکے کا مسئلہ پیش کیا،اور انھوں نے خیبر وفَدَک کو مستثنیٰ کرکے مدینے والی جائدا د دونوں صاحبوں کی تولیت میں اس شرط پر دے دی کہ وہ اس کی آمدنی انھی مصارف میں صرف کریں گے جن میں حضور ﷺ اپنی حیات طیبہ میں صرف فرماتے تھے۔({ FR 1696 }) لیکن اس کے بعد حضرت علیؓ اورحضرت عباسؓ کے درمیان اس جائداد کے انتظام پر نزاع واقع ہوگئی اور وہ اس قضیے کو لے کر حضرت عمرؓ کے پاس پہنچے۔ اس کانہایت مفصل قصہ مالک بن اوس بن الحدثانؓ کے حوالے سے تمام معتبرکتب حدیث میں روایت ہوا ہے۔
حضرت مالک ؓ کہتے ہیں کہ میں حضرت عمرؓ کے پاس بیٹھا تھاکہ ان کے حاجب نے آکر عرض کیا کہ عثمانؓ بن عفان، عبدالرحمنؓ بن عوف، زبیرؓ بن العوام اور سعدؓ بن ابی وقاص حاضری کی اجازت طلب کرتے ہیں ۔ حضرت عمرؓ نے اجازت دے دی اور وہ تشریف لے آئے۔اس کے تھوڑی دیر بعد وہ پھر آیا اور اطلاع دی کہ عباسؓ بن عبدالمطلب اور علی ؓبن ابی طالب تشریف لاے ہیں اور وہ بھی اجازت کے طالب ہیں ۔ حضرت عمرؓ کے اجازت دینے پر دونوں صاحب اندر تشریف لے آئے اور سلام کے بعدبیٹھتے ہی حضرت عباسؓ نے کہا کہ اے امیر المؤمنین!میرے اور اس کے(اپنے بھتیجے حضرت علیؓ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا) مقدمے کا فیصلہ فرما دیجیے۔اس کے ساتھ چچا نے بھتیجے کے حق میں کچھ سخت سست الفاظ بھی استعمال کیے۔دوسرے حاضرین نے کہا: واقعی امیر المؤمنین!ان کا قضیہ بہت طول کھینچ گیا ہے،آپ انھیں اس جھگڑے سے نجات دلایئے۔ حضرت عمرؓ نے کہا ٹھیریے،میں آپ صاحبوں کو اس خدا کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے زمین وآسمان قائم ہیں ،کیا آپ جانتے ہیں کہ رسول اﷲﷺنے فرمایا تھا: ’’ہماری وراثت جاری نہیں ہوتی، جو کچھ ہم نے چھوڑا وہ صدقہ ہے؟‘‘چاروں صاحبوں نے کہا:ہاں ، حضور ﷺ نے ایسا ہی فرمایا تھا۔ پھر حضرت عمرؓ نے حضرت علیؓاور حضرت عباسؓ کو اسی طرح اﷲ کا واسطہ دے کر پوچھا:کیا آپ دونوں صاحب جانتے ہیں کہ حضورﷺنے ایسا اور ایسا فرمایا تھا؟ دونوں نے جواب دیا: جی ہاں ، واقعی حضور ﷺ نے یہ فرمایا تھا۔
حضرت عمرؓ نے کہا:اچھا اب میں آپ لوگوں کو اس معاملے کی حقیقت بتاتا ہوں ۔ اﷲ تعالیٰ نے فے کے معاملے میں اپنے رسولﷺ کو وہ مخصوص اختیارات عطا فرمائے تھے جو کسی دوسرے کو عطا نہیں فرمائے۔ پھرسورۂ الحشرکی آیت وَمَا اَفَآئَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ ( الحشر:۶) آخر تک تلاوت کرکے حضرت عمرؓ نے فرمایا:اس آیت کی رو سے یہ اموالِ فے خالصتاً رسول اﷲ ﷺ کے لیے تھے۔مگر خدا کی قسم!حضور ﷺ نے آپ لوگوں کو چھوڑکر ان سب کو اپنے لیے نہیں سمیٹ لیا اور نہ ان کے معاملے میں کوئی خود غرضی برتی، بلکہ انھیں آپ ہی لوگوں میں تقسیم کردیا، یہاں تک کہ تین جائدادیں (مدینہ، فَدَک اور خیبر والی )بچ گئیں ۔ ان جائدادوں میں سے حضور ﷺ اپنا اور اپنے اہل وعیال کا سال بھر کا نفقہ لے لیتے تھے اور باقی ساری آمدنی انھی کاموں میں صرف فرماتے تھے جن میں اﷲ کا مال صرف کیا جاتا ہے۔ یہی حضور ﷺ کا عمل ان اموال کے معاملے میں زندگی بھر رہا ہے۔میں آپ لوگوں کو اللّٰہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ یہ بات آپ سب لوگوں کے علم میں ہے؟ چاروں صاحبوں نے جواب دیا: جی ہاں ۔ پھرحضرت عباسؓاور حضرت علیؓ سے مخاطب ہوکر کہا: میں آپ دونوں کو بھی اللّٰہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں ،آپ یہ بات جانتے ہیں ؟انھوں نے جواب دیا :جی ہاں ہم جانتے ہیں ۔اس کے بعد حضرت عمر ؓ نے کہا:پھر اﷲ نے اپنے نبیﷺ کو اٹھا لیا اور ابوبکرؓ نے یہ کہہ کر کہ اب میں رسول اﷲﷺ کا ولی ہوں ، ان اموال کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور ان کے معاملے میں اسی طریقے پر عمل کیا جس طرح رسول اﷲﷺ کرتے تھے۔ اﷲ جانتا ہے کہ اس میں ابوبکر ؓ بالکل سچے تھے اور ٹھیک ٹھیک حق کے تابع تھے۔پھر اﷲ نے ابوبکرؓ کو بھی اٹھا لیا اور میں ان کا ولی ہوا۔
میں نے اپنی امارت کے پہلے دو سال تک اموال کو اپنے ہاتھ میں لے کر اسی طرح عمل کیا جس طرح رسول اﷲﷺ اور ابوبکرؓ کرتے تھے۔اﷲ جانتاہے کہ میں بھی اس میں سچا اور تابع حق تھا۔پھر(حضرت علیؓ اور حضرت عباسؓ سے مخاطب ہوکر فرمایا:) آپ دونوں صاحب میرے پاس آئے اور آپ نے مجھ سے اس جائداد کے معاملے میں گفتگو کی۔اس وقت آپ دونوں کے درمیان اتفاق تھا۔اے عباس! آپ نے مجھ سے اپنے بھتیجے کی میراث طلب کی، اور اے علی! آپ نے مجھ سے اپنی بیوی کے واسطے سے ان کے والد کی میراث مانگی۔میں نے آپ سے کہا کہ رسول اﷲﷺ کا ارشاد ہے: لَا نُوْرَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَۃٌ لہٰذا اگر آپ چاہیں تو میں اس شرط پر یہ جائداد آپ کے حوالے کرسکتا ہوں کہ آپ اس میں اسی طرح عمل کریں جس طرح رسول اﷲ ﷺ اور ان کے بعد ابو بکرؓ عمل کرتے رہے اور خلیفہ ہونے کے بعد سے میں عمل کررہا ہوں ۔ لیکن اگریہ شرط آپ کو منظور نہ ہو تو مجھ سے اس معاملے میں بات نہ کیجیے۔ پھر حضرت عمرؓ نے چاروں صاحبوں کو خدا کا واسطہ دے کر پوچھا: کیوں حضرات! میں نے اسی شرط پر یہ جائداد ان دونوں اصحاب کے حوالے کی تھی؟انھوں نے کہا: ہاں ۔پھر حضرت علیؓ اور حضرت عباسؓ کو بھی اسی طرح خدا کا واسطہ دے کرپوچھا کہ اس جائداد کو حوالے کرتے وقت میری یہی شرط تھی؟انھوں نے بھی اسے تسلیم کیا۔اس کے بعد حضرت عمرؓ نے کہا:اب آپ چاہتے ہیں کہ میں اس سے مختلف کوئی فیصلہ کردوں ۔ اس خدا کی قسم جس کے حکم سے زمین وآسمان قائم ہیں ،میں کوئی دوسرا فیصلہ نہیں کروں گا،اگر آپ اس شرط پر عمل نہیں کرسکتے تو یہ جائداد میرے حوالے کردیجیے،میں اس کا انتظام کرلوں گا۔({ FR 1697 })
یہ ہے اس معاملے کی پوری تاریخ جو حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمر ؓ کے زمانے میں پیش آئی۔ اسے دیکھ کر ہر شخص خود راے قائم کرسکتا ہے کہ اس معاملے میں جو کچھ کیا گیا، وہ ظلم تھا یا عدل اور حق؟ اس کے ساتھ دو باتیں اور بھی ہیں جو صحیح راے قائم کرنے کے لیے نگاہ میں رہنی چاہییں :
اوّل یہ کہ اصل بحث صرف یہ تھی کہ اس جائداد کو نبیﷺ کے بعدمیراث میں تقسیم کیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟یہ بحث نہ تھی کہ رسول اﷲ ﷺ کے اہل وعیال اور قرابت داروں کو بیت المال سے نفقہ پانے کا حق ہے یا نہیں ؟ تاریخ گوا ہ ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمرؓ نے خود اپنی ذات اور اپنے خاندان والوں سے بدرجہازیادہ ان حضرات کی خدمت کی۔ان کے حق کو ہر دوسرے حق پر مقدم رکھا، اور جو وظائف ان کے لیے جاری کیے ،وہ خیبر اور فَدَک اور مدینۂ طیبہ کی جائدادوں کے محاصل سے کہیں بڑھ کر تھے۔
دوسری بات جو اس سے بھی زیادہ اہمیت رکھتی ہے، بلکہ اس مسئلے میں فیصلہ کن ہے،وہ یہ ہے کہ خود سیّدنا حضرت علیؓ جب خلیفہ ہوئے تو انھوں نے بھی اس جائداد کو رسول اﷲ ﷺ کی میراث قرار دے کر وارثوں میں تقسیم نہیں کیا بلکہ اسے بدستور وقف فی سبیل اﷲ ہی رہنے دیا۔
سوال یہ ہے کہ اگر یہ واقعی میراث ہی تھی تو حضرت علیؓ کے لیے اپنے زمانۂ اقتدار میں وارثوں کو اس سے محروم رکھنا کیسے جائز ہوگیا؟اسے ظلم ہی کہنے کو کسی کاجی چاہتا ہو تو پھر اسے اتنا انصاف تو کرنا ہی چاہیے کہ جس جس نے اس کا ارتکاب کیا ہے،ان سب کو ظالم کہے۔ایک ہی فعل پر کسی کے حق میں ایک فیصلہ اور کسی دوسرے کے حق میں دوسرا فیصلہ کرنا حق پرست آدمی کا کام نہیں ہے۔ (ترجمان القرآن،نومبر ۱۹۵۸ء)