رسُومات کی اصلاح میں ترجیحات

میں عرصے سے تجرد کی زندگی گزار رہا ہوں اور اس سبب کی ذمہ داری میرے ’’اجتہاد‘‘ کے سر ہے۔ ہمارے اطراف میں کچھ اس قسم کے اصول ومراسم شائع ہیں جن کے بارے میں اگر فقہی موشگافیوں سے کام لینا شروع کردیا جائے تو ان کو ’’ناجائز‘‘اور’’غیر شرعی رسم‘‘کہنا مشکل ہوگا۔مثلاً یہ کہ منسوبہ یا منکوحہ کے لیے زیور وپارچہ جات کا مطالبہ، کچھ آپس کے لین دین، ایک دوسرے کے کمیوں اور خدمت گاروں کو بطور عطیہ وانعام کچھ دینا دلانا، برادری اور اہل قرابت کو بلانا اور ان کی ضیافت کرنا وغیرہ۔ یہ بہت سی چیزیں بظاہر اگر علیحدہ علیحدہ کرکے دیکھی جائیں تو ان میں سے غالباً کسی ایک کو بھی ناجائز نہ کہا جاسکے گا۔لیکن اگر ان مراسم کے اس پہلو پر نظر ڈالی جائے کہ ان کی پابندی اور التزام اس حد تک ہے کہ ان کے بغیر کامیابی ہی نہیں ہوتی اور کوئی کسی درجے کا آدمی کیوں نہ ہو،ان کی پابندی قبول کیے بغیر ازدواجی زندگی کا آغاز کرہی نہیں سکتا، تو بالکل صفائی سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ چیزیں اب صرف ’’مباح‘‘ کے درجے پر باقی نہیں رہی ہیں ، بلکہ یہ سب برادری کا ایک قانون بن گئی ہیں اور ایسا قانون کہ ان کی خلاف ورزی کرنے والا گویامجرم متصور ہوتا ہے۔پس جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہر باطل قانون کو توڑ دیا جائے،چاہے وہ کہیں ہو،تو سوال یہ ہے کہ آیا مذکورہ بالا چیزیں اس شکست وریخت کی مستحق ہیں یا نہیں ؟ اگر یہ حملے کی مستحق ہیں جیسا کہ میری راے ہے، تو کیا یہ حقیقت آپ سے مخفی ہے کہ ہندستان کاکوئی گوشہ بھی ایسا نہیں ہے جہاں اس قسم کی ’’شریعتِ رسوم‘‘ نافذ العمل نہ ہو،خواہ اس کی تفصیلی اشکال کچھ ہی ہوں ۔ جن تقریبات کو آج کل ’’شرعی تقریبات‘‘کہا جاتا ہے وہ بھی بس صرف اس حد تک شرعی ہوتی ہیں کہ ان میں ناچ، باجا گاجا اور ایسی ہی دوسری خرافات ومزخرفات نہیں ہوتیں ،لیکن مذکورہ بالا رسوم کا جہاں تک تعلق ہے،وہ ان میں بھی بدرجۂ اتم موجود رہتی ہیں اور انھیں ’’اباحت‘‘ کی چادر میں چھپا لیا جاتا ہے۔پس کیا جماعتِ اسلامی کا یہ فرض نہیں ہے کہ وہ اپنے اراکین کو ’’غیر شرعی رسوم‘‘ کی وضاحت اس طرح کرکے بتلاے کہ یہ ’’اباحت‘‘ کی قبا چاک ہوجائے اور وہ اپنی تقریبات کو بالکل مسنون طریقے پرمنائیں ؟ اگر ان رسوم کے خلاف میرااحساس صحیح نہ ہو تو پھر کچھ وضاحت سے ’’شریعتِ رسوم‘‘ کے واجبات کو قابلِ بغاوت قوانین باطل سے مستثنیٰ قرار دینے کی وجوہ تحریر فرمائیں ۔اس سے اگر میرا اطمینان ہوگیا تو تجرد کی مصیبت سے نجات حاصل ہوسکے گی۔ اور اگر آپ نے میری راے کی تصدیق کی تو پھر میرے لیے بظاہر کامیابی کا کہیں موقع نہیں ہے۔مگر مجھے اس سے بڑی مسرت ہوگی،کیوں کہ پھر تکلیف صحیح معنوں میں اﷲ کی راہ میں ہوگی۔ لَعَلَّ اللہَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا({ FR 2195 }) ( الطلاق:۱)
جواب

ہم اَلْاَ قْدَمُ فَالْاَ قْدَمُ کے اصول پر کام کررہے ہیں ۔پہلے دین کی جڑوں کو دلوں میں جمانا ضروری ہے، اس کے بعد تفصیلات کو ایک ترتیب وتدریج کے ساتھ زندگی کے مختلف گوشوں اور کونوں میں درست کرنے کا موقع آئے گا۔اگر ہم شادی بیاہ،لین دین اور دوسرے معاملات کی تفصیلات وجزئیات بیان کرنے پر اُتر آئیں تو ہماری اصولی دعوت کا کام منتشر ہوجائے گا۔اس لیے جہاں تک دین کے بنیادی اُمور کا تعلق ہے، ہم ان کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں ، اور جہاں تک جزئیات کا تعلق ہے،ان کے متعلق ہم سرِدست اجمال سے کام لے رہے ہیں ۔
شادی بیاہ وغیرہ تقریبات کی رسوم کی پوری پوری اصلاح اس وقت تک ہو ہی نہیں سکتی جب تک کہ دینی زندگی اپنی صحیح بنیادوں پر تعمیر ہوتی ہوئی اس مرحلے پر نہ پہنچ جائے جہاں ان چیزوں کی اصلاح ممکن ہو۔ اس وقت تک ہمارے ارکان کو زیادہ تر صرف ان چیزوں سے اجتناب پر اصرار کرنا چاہیے جن کو صریحاً خلافِ شریعت کہا جاسکتا ہو۔ رہیں وہ چیزیں جو معاشرتِ اسلامی کی روح کے تو خلاف ہیں مگر مسلمانوں کی موجودہ معاشرت میں قانون وشریعت بنی ہوئی ہیں ، تو وہ ہمارے ذوقِ اسلامی پرخواہ کتنی ہی گراں ہوں ،لیکن سرِدست ہمیں ان کو اس امید پر گوارا کر لینا چاہیے کہ بتدریج ان کی اصلاح ہوسکے گی۔مگر یہ گوارا کرنا رضامندی کے ساتھ نہ ہو،بلکہ احتجاج اور فہمائش کے ساتھ ہو۔یعنی ہر ایسے موقع پر واضح کردیا جائے کہ شریعت تو اس طرح کے نکاح چاہتی ہے جیسے ازواج مطہراتؓ اور دوسرے صحابہ کرامؓ کے ہوئے تھے،لیکن اگر تم لوگ یہ تکلّفات کیے بغیر نہیں مانتے تو مجبوراً ہم اس کو گوارا کرتے ہیں اورخدا سے دعا کرتے ہیں کہ وہ وقت آئے کہ جب تم نبیﷺ اور اصحابِ نبیؐ کی طرح کے سادہ نکاح کرنے کو اپنی شان سے فروتر نہ سمجھو!
ہمارا یہ رویہ تو عام لوگوں کے لیے ہے جن سے ہم مختلف قسم کے روابط پیدا کرنے اور جن کے ساتھ کئی طرح کے دنیوی اُمور میں معاملہ کرنے پر مجبور ہیں ۔ لیکن خود ارکان جماعت کے درمیان ایسے جتنے روابط اور معاملات بھی ہوں ،انھیں رسوم کی آلودگیوں سے پاک کرکے سادگی کی اس سطح پر لے آنا چاہیے جس تک نبی ﷺ اور آپؓ کے صحابہ نے انھیں پہنچایا تھا۔ ہمارے معاملات میں مباحات کو مباحات ہی کی حد تک رہنا چاہیے اور ان میں سے کسی چیز کو قانون اور شریعت کے درجے تک نہیں پہنچنا چاہیے۔ رواج کی رَو میں بہنے والے بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو بغاوت کرنا بھی چاہتے ہیں مگر پہل کی جسارت نہیں کرسکتے۔ رسموں کی بیڑیوں سے نجات حاصل تو کرنا چاہتے ہیں مگر دوسروں سے پہلے انھیں کاٹنے کی جرأت نہیں رکھتے۔اپنی پیٹھوں پر لدے ہوئے رواجوں کے بوجھوں سے ان کی کمریں ٹوٹ رہی ہوتی ہیں مگر ان کو پٹخ دینے میں پیش قدمی نہیں کرسکتے۔ یہ پہل اور پیش قدمی اب ہم لوگوں کو کرنی ہے۔ہمارے ہر ساتھی کا یہ فرض ہے کہ زندگی کے روز مرہ کے معاملات اور تقریبات کو گوناگوں پابندیوں سے آزاد کرنے میں پوری بے باکی سے پہل کرے اور لوگوں کی ’’ناک‘‘بچانے کے لیے خود نکّو بن کر معاشرتی زندگی میں انقلاب برپا کرے۔ خالص اسلامی انداز میں تقریبات اور معاملات کو سرانجام دینے کی مثالیں اگر جگہ جگہ ایک دفعہ قائم کر دی جائیں گی تو سوسائٹی کا کچھ نہ کچھ عُنصر ان کی پیروی کرنے کے لیے آمادہ ہوجائے گا اور اس طرح رفتہ رفتہ احوال بدل سکیں گے۔ (ترجمان القرآن ، جولائی،اگست۱۹۴۳ء)