ریڈیو یا ٹیپ ریکارڈر کے ذریعے اِمامت

ریڈیو ایک ایسا آلہ ہے جو ایک شخص کی آواز کو سیکڑوں میل دور پہنچا دیتا ہے۔اسی طرح گرامو فون کے ریکارڈوں میں انسانی آواز کومحفوظ کرلیا جاتا ہے اور پھر اسے خاص طریقوں سے دہرایا جاسکتا ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر کوئی اِمام ہزاروں میل کے فاصلے سے بذریعۂ ریڈیو اِمامت کراے یا کسی اِمام کی آواز کو گرامو فون ریکارڈ میں منضبط کر لیا گیا ہو اور اسے دہرایا جائے، تو کیا ان آلاتی آوازوں کی اقتدا میں نماز کی جماعت کرنا جائزہے؟
جواب

ریڈیوپر ایک شخص کی اِمامت میں دُور دراز کے مقامات کے لوگوں کا نماز پڑھنا یا گراموفون کے ذریعے سے نماز کا ریکارڈ بنانا اور پھر کسی جماعت کا اس کی اقتدامیں نما زپڑھنا اصولاً صحیح نہیں ہے۔اس کے وجوہ پر آپ غور کریں تو خود آپ کی سمجھ میں آسکتے ہیں ۔
اِمام کا کام محض نماز پڑھانا ہی نہیں ہے بلکہ وہ ایک طرح سے مقامی جماعت کا راہ نما ہے۔ اس کا کام یہ ہے کہ اپنے مقام کے لوگوں سے شخصی ارتباط قائم کرے، ان کے اخلاق،معاملات اور مقامی حالات پر نظر رکھے، اور حسب موقع وضرورت اپنے خطبوں میں یا دوسرے مفید مواقع پر اصلاح وارشاد کے فرائض انجام دے۔یہ الگ بات ہے کہ مسلمانوں کی دوسری چیزوں کے ساتھ اس ادارے میں بھی اب انحطاط رونما ہوگیا ہے۔ لیکن بہرحال نفسِ ادارہ کو تو اپنی اصلی صورت پر قائم رکھنا ضروری ہے۔اگر ریڈیو پر نمازیں ہونے لگیں یا گرامو فون سے اِمامت وخطابت کا کام لیا جانے لگے تو امامت کی اصل رُوح ہمیشہ کے لیے فنا ہوجائے گی۔
نماز دوسرے مذاہب کی عبادتوں کی طرح محض’’پوجا‘‘نہیں ہے۔لہٰذا اس کی اِمامت سے شخصیت کو خارج کردینا اور اس میں ’’مشینیت‘‘پیدا کردینا دراصل اس کی قدر وقیمت کو ضائع کردینا ہے۔
علاوہ بریں اگر کسی مرکزی مقام سے کوئی شخص ریڈیو یا گرامو فون کے ذریعے سے امامت وخطابت کے فرائض انجام دے اورمقامی امامتوں کا خاتمہ کردیا جائے، تو یہ ایک ایسی مصنوعی یکسانی ہوگی جو اسلام کی جمہوری روح کو ختم کردے گی اور اس کی جگہ ڈکٹیٹر شپ کو ترقی دے گی۔ یہ چیز ان نظامات کے مزاج سے مناسبت رکھتی ہے جن میں پوری پوری آبادیوں کو ایک مرکز سے کنٹرول کرنے اور تمام لوگوں کو ایک لیڈر کا بالکلیہ تابع بنادینے کا اُصول اختیار کیا گیا ہے، جیسے فاش ازم اور کمیون ازم ۔لیکن اسلام ایک مرکزی امام یا امیر کے اقتدار کو ایسا ہمہ گیر بنانا نہیں چاہتا کہ مقامی لوگوں کی باگ ڈور بالکل اس کے ہاتھوں میں چلی جائے اور خود ان کے اندر اپنے مفاد کو سوچنے،اپنے معاملات کو سمجھنے اور ان کو طے کرنے کی صلاحیت ہی نشو ونما نہ پاسکے۔
نبی کریم ﷺ کی قرنِ خیر القرون میں ’’امام‘‘ محض پجاری کی حیثیت نہیں رکھتے تھے جن کا کام چند مذہبی مراسم کوادا کرادینا ہو، بلکہ وہ مقامی لیڈر کے طورپر مقررکیے جاتے تھے۔ان کاکام تعلیم وتزکیہ اور اصلاحِ تمدن ومعاشرت تھا، اور مقامی جماعتوں کو اس غرض کے لیے تیار کرنا تھا کہ وہ بڑی اور مرکزی جماعت کی فلاح وبہبود میں اپنی قابلیتوں کے مطابق حصہ لیں ۔ایسے اہم مقاصد ریڈیو سیٹ یا گرامو فون سے کیوں کر پورے ہوسکتے ہیں ۔آلات انسان کا بدل کبھی نہیں ہو سکتے، صرف مدد گار ہوسکتے ہیں ۔ ان وجوہ سے میں سمجھتا ہوں کہ ’’مشینی اِمامت‘‘ اسلام کی روح کے بالکل خلاف ہے۔
(ترجمان القرآن ، جنوری، فروری ۱۹۴۴ء)