زمین داری اور آباو اجداد کی میراث کی تقسیم

بڑے بھائی بتلاتے ہیں کہ اگر نوکری [نظامِ کفر کی ملازمت]حرام ہے تو زمین داری کون سی حلا ل ہے۔ ہماری زمین سرکار (ایک ریاست) نے ہمارے آبائ و اجداد کو بخشش کے طور پر دی تھی ۔وہ تو تمھارے نظریے کی رُو سے حلال آمدنی قطعاً نہیں دے سکتی۔علاوہ بریں اسلام میں زمین دارہ سسٹم سرے سے ناجائزہے۔یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے دادا نے اپنی جائداد بروے شریعت تقسیم نہیں کی تھی۔ ان کی وراثت صرف نرینہ اولاد میں چلی ہے اور مستورات کو محروم رکھا گیا ہے۔پھر نوکری کو حرام کہنے کے بعد ایسی جائدادپر کوئی شخص کیسے بسر اوقات کرسکتاہے؟
جواب

یہ کہنا غلط ہے کہ اسلام میں زمین داری سرے سے ناجائز ہے۔ البتہ ہندستان ({ FR 1425 })میں زمین داری کی بعض شکلیں ایسی ضرور رائج ہوگئی ہیں جو جائز نہیں ہیں ۔ اگر شرعی طریقے پر آپ زمین داری کریں اور ناجائز فائدے اٹھانے سے بچیں تو اس میں کوئی حر ج نہیں ۔
جوجائداد کسی شخص کو آبائ و اجداد سے ملی ہو ،اس کی سابق تاریخ دیکھنے کا شریعت نے اسے مکلف نہیں کیا۔ اس معاملے میں قرآن کا قانون گزشتہ پر گرفت نہیں کرتا بلکہ حال اور مستقبل کی اصلاح ہی پر اکتفا کرتا ہے۔اس کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ جب وہ جائداد اس کی ملکیت میں آئے،اس وقت سے وہ اس میں شرعی طریقے پر تصرف کرے اور سابق میں جن لوگوں نے اس کو غلط طریقے سے حاصل کیا تھا اور اس میں غلط تصرفات کیے تھے،ان کے معاملے کو خدا پر چھوڑ دے۔البتہ اگر کوئی چیز آپ کے قبضے میں ایسی ہو جس کے بارے میں آپ کو متعین طور پر معلوم ہو کہ اس میں فلاں فلاں لوگوں کے غصب شدہ حقوق شامل ہیں اور وہ لو گ بھی موجود ہوں ،نیز اُن کا حصہ بھی متعین طورپر معلوم ہو، تو اپنی حد تک ان کے حقوق واپس کر دیجیے۔
(ترجمان القرآن،جولائی۔ اگست۱۹۴۵ء)