زکاۃ اور مسئلۂ تملیک

علماے حنفیہ بالعموم ادائگی زکاۃ کے لیے تملیکِ شخصی کو لازم قرار دیتے ہیں ۔اس لیے ان کا فتویٰ یہ ہے کہ حیلہِ تملیک کے بغیررفاہِ عام کے اداروں مثلاً مدارس اور شفا خانوں وغیرہ کے اجتماعی مصارف میں زکاۃدینا صحیح نہیں ۔ اس پر ایک مستفسر نے بعض اشکالات وسوالات علماے کرام کی خدمت میں پیش کیے تھے جو ترجمان القرآن، محرم۱۳۷۴ھ میں بھی شائع ہوئے تھے۔ سائل کا بنیادی اعتراض یہ تھا کہ فقہ حنفی میں تملیک کی جو شرط لگائی جاتی ہے اور اس کی بِنا پر جو فروعی احکام بیان کیے جاتے ہیں ،وہ صرف اسی صورت میں قابل عمل ہیں جب کہ لوگ انفرادی طور پر زکاۃ نکال کر انفرادی طور پر ہی اسے خرچ کریں ۔ لیکن اجتماعی طور پر مثلاً اسلامی حکومت کے ذریعے سے اگر زکاۃ کی وصولی وصرف کا انتظام کیا جائے تو شرط تملیک اپنے جزوی احکام کے ساتھ ایک دن بھی نہیں چل سکتی۔کیوں کہ زکاۃ کے نظام کو وسیع اور مستحکم کرتے ہوئے زکاۃ کی تقسیم وتنظیم،حمل ونقل اور متعلقہ ساز وسامان کی فراہمی میں بے شمار شکلیں ایسی پیدا ہوں گی جن میں شرطِ تملیک کی پابندی محال ہوگی۔ ان سوالات کا جو جواب دیا گیا تھا وہ درج ذیل ہے: جس فتوے پر یہ سوالات کیے گئے ہیں ،میرے نزدیک وہ آیت اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ... کی اس تأویل کے اعتبار سے بھی صحیح نہیں ہے جو حنفیہ نے اختیار فرمائی ہے۔اس مطلب کو سمجھنے کے لیے آیت کے الفاظ پر ایک نگاہ ڈال لیں ۔اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ ( التوبۃ:۶۰) ’’صدقات تو فقرا کے لیے ہیں اور مساکین کے لیے،اور ان لوگوں کے لیے جو ان پر کام کرنے والے ہوں ،اور ان کے لیے جن کی تالیف قلب مقصود ہو...۔‘‘
جواب

دیکھیے یہاں لام کا عمل صرف فقرا ہی پر نہیں ہورہا ہے بلکہ مساکین،عاملین علیہا اور مؤلفۃ قلوبہم پر بھی ہورہا ہے۔یہ لام تملیک کے لیے ہے تو،اور استحقاق یا اختصاص یا کسی اور معنی کے لیے ہے تو، بہرصورت جس معنی میں بھی یہ فقرا سے متعلق ہوگا،اسی معنی میں باقی تینوں سے بھی متعلق ہوگا۔ اب اگر حنفی تأویل کے لحاظ سے وہ تملیک کا مقتضی ہے تو زکاۃ اور صدقات واجبہ کا مال ان چاروں میں سے جس کے حوالے بھی کردیا جائے گا تملیک کا تقاضا پورا ہوجائے گا۔آگے تملیک در تملیک کا حکم کہاں سے نکالا جاتا ہے؟کیا فقیر یا مسکین کی ملک میں زکاۃ کا مال پہنچ جانے کے بعد اس کے تصرفات پر کوئی پابندی ہے؟ اگرنہیں تو عاملین علیہا کے ہاتھ میں مال پہنچ جانے کے بعد، جب کہ لام تملیک کا تقاضا پورا ہوچکا، پھر مزید تملیک کی پابندی لگانے کے لیے کیا دلیل ہے؟
لام کو اگر تملیک ہی کے معنی میں لیا جائے تو ایک شخص جب زکاۃ و صدقات واجبہ کے اموال عاملین علیہا کے سپرد کردیتا ہے تو گویا وہ انھیں اس کا مالک بنادیتاہے،اور یہ اسی طرح ان کی ملک بن جاتے ہیں جس طرح فے اور غنیمت کے اموال حکومت کی ملک بنتے ہیں ۔پھر ان پر یہ لازم نہیں رہتا کہ وہ ان اموال کو آگے جن مستحقین پر بھی صرف کریں ، بصورت تملیک ہی کریں ۔ بلکہ انھیں یہ حق حاصل ہے کہ باقی ماندہ سات مصارف زکاۃ میں اس کو جس طرح مناسب اور ضروری سمجھیں صرف کریں ۔ لا م تملیک کے زور سے ان پر کوئی قید نہیں لگائی جاسکتی۔البتہ جو قید لگائی جاسکتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ جو شخص بھی زکاۃ کی تحصیل وصرف کے سلسلے میں کوئی عمل کرے، وہ بس اس عمل کی اجرت لے لے۔ باقی مال اسے دوسرے مستحقین زکاۃ پر صرف کرنا ہوگا۔اس لیے کہ یہ لوگ عاملین علیہا ہونے کی حیثیت سے ان اموال کے مالک بناے جاتے ہیں نہ کہ بجاے خود مستحق ہونے کی حیثیت سے۔’’عاملین علیہا‘‘کا لفظ خود اس وجہ کو ظاہر کردیتاہے جس کے لیے زکاۃ ان کے حوالے کی جاتی ہے۔ اور پھر یہی لفظ یہ بھی طے کردیتا ہے کہ وہ عامل ہونے کی حیثیت سے اس مال کا کتنا حصہ جائز طور پر اپنے ذاتی تصرف میں لانے کا حق رکھتے ہیں ۔
اس تشریح کے بعد اس حدیث پر نگاہ ڈالیے جو امام احمدؒ نے حضرت انس بن مالکؓ سے روایت کی ہے۔ اس میں حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ:اِذَا اَدَّیْتُ الزَّکٰاۃَ اِلٰی رَسُوْلِکَ فَقَدْ بَرِئْتُ مِنْھَا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ؟ ’’جب میں نے آپ ؐ کے بھیجے ہوئے عامل کو زکاۃ ادا کردی تو میں اﷲ اور اس کے رسول ؐ کے سامنے اپنے فرض سے بری الذمہ ہوگیا نا؟‘‘ حضور ﷺ نے جواب دیا: نَعَمْ اِذَا اَ دَّیْتَھَا اِلٰی رَسُوْلِیْ فَقَدْ بَرِئْتَ مِنْھَا فَلَکَ اَجْرُھَا وَاِثْمُھَا عَلٰی مَنْ بَدَّلَھَا ({ FR 2217 }) ’’ہاں ! جب تو نے اسے میرے فرستادہ عامل کے حوالے کردیا تو تو اپنے فرض سے بری الذمہ ہوگیا۔اس کااجر تیرے لیے ہے اور جو اس میں ناجائز تصرف کرے، اس کا گناہ اسی پر ہے۔‘‘
اس سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ زکاۃ دینے والا اپنی زکاۃ عاملین علیہا کے سپرد کرکے بری۱ لذمہ ہوجاتا ہے۔بالفاظ دیگر لام تملیک کا تقاضا جس طرح کسی فقیر یامسکین کو زکاۃدینے سے پورا ہوتا ہے، اسی طرح عاملین علیہا کو دے دینے سے بھی پورا ہوجاتا ہے۔اب یہ فتویٰ کس بنیاد پر دیا جاتا ہے کہ عاملین علیہا اگر آگے تملیک ہی کے طریقے پر اموال زکاۃ کو صرف کرتے ہوں تو انھیں زکاۃ دو ورنہ نہیں ؟ زکاۃدینے والوں پر یہ دیکھنا کس نے فرض کیا ہے کہ عاملین کس طریقے پر عمل کرتے ہیں ؟ان کا فرض صرف یہ ہے کہ زکاۃ کے مستحقین کو، یا ان کے لیے کام کرنے والے عاملین کو اپنے اموال زکاۃ کا مالک بنادیں ۔ عاملین کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جو بات کہی جاسکتی ہے ،وہ یہ کہ جس شخص کو اس حیثیت سے زکاۃ دی جارہی ہو ،اس کے بارے میں زکاۃدینے والا یہ اطمینان کرلے کہ وہ واقعی’’عامل‘‘ ہے یا نہیں ؟ حکومت اسلامی موجود ہو اور اس نے عاملین زکاۃمقرر کیے ہوں تو ان کے پا س حکومت کی طرف سے تحصیل زکاۃ کا پروانہ موجود ہونا ہی اس ا طمینان کے لیے کافی ہے۔ لیکن اگر یہ صورت نہ ہواور مسلمانوں کے لیے کسی اجتماعی تنظیم نے بطور خود زکاۃ کی تحصیل و صرف کا بندوبست کیا ہو تو اس کے بارے میں بس یہ تحقیق کرلینا چاہیے کہ وہ واقعی مستحقین زکاۃ پر اس مال کو صرف کرتی ہے، اور ’’عمل‘‘ کے مصارف اسی حد تک لیتی ہے جنھیں جائز ومعقول کہا جاسکے۔ تحقیق سے ان باتوں کا اطمینان ہوجائے تو اس کو زکاۃ دینے والا یقیناً فرض سے سبک دوش ہوجائے گا۔ کوئی شرعی دلیل مجھے ایسی نظر نہیں آتی جس کی بِنا پر زکاۃدینے والوں کو یہ حکم دیا جائے کہ وہ عاملین علیہا کو زکاۃ دینے سے پہلے یہ بھی تحقیق کریں کہ وہ اموال زکاۃ کو بطریق تملیک صرف کرتے ہیں یا نہیں ؟
اب یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ عاملین علیہا کے الفاظ جو قرآن میں ارشاد فرمائے گئے ہیں ، ان کا اطلاق کن لوگوں پر ہوتا ہے۔ لوگ اسے صرف ان کارندوں تک محدود سمجھتے ہیں جن کو حکومت اسلامی اس کام کے لیے مقرر کرے۔لیکن قرآ ن کے الفاظ عام ہیں جن کا اطلاق ہر اس شخص پر ہوسکتا ہے جو زکاۃ کی تحصیل وتقسیم کے سلسلے میں ’’عمل‘‘کرے۔اس عام کو خاص کرنے والی کوئی دلیل میرے علم میں نہیں ہے۔ اگر حکومت اسلامی موجود نہ ہو،یا ہو مگر اس فرض سے غافل ہو ،اور مسلمانوں میں کوئی گروہ یہ’’عمل‘‘ کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہو، تو آخر کس دلیل سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ نہیں تم عاملین علیہا نہیں ہو؟ میرے نزدیک تو یہ اﷲ کی رحمتوں میں سے ایک رحمت ہے کہ اس نے عاملین حکومت کے لیے خاص کرنے کے بجاے اپنا حکم ایسے عام الفاظ میں دیا ہے جن میں یہ گنجائش پائی جاتی ہے کہ اسلامی حکومت کی غیر موجودگی، یا غافل حکمرانوں کی موجودگی میں مسلمان بطور خود بھی زکاۃ کی تحصیل وتقسیم کے لیے مختلف انتظامات کرسکیں ۔ اگر اﷲ تعالیٰ کے اس عام حکم کو عام ہی رہنے دیا جائے تو غریب طلبہ کی تعلیم، یتیموں کی پرورش، بوڑھوں اور معذوروں اور اپاہجوں کی نگاہ داشت ،نادار مریضوں کے علاج،اور ایسے ہی دوسرے کاموں کے لیے جو ادارے قائم ہوں ،ان سب کے منتظمین بالکل بجا طور پرعاملین علیہا کی تعریف میں آئیں گے اور ان کو زکاۃ لینے اور حسب ضرورت صرف کرنے کے اختیار ات حاصل ہوجائیں گے، اور ان حیلہ بازیوں کی کوئی حاجت باقی نہ رہے گی جو آج کل ہمارے عربی مدرسوں کے مہتمم حضرات زکاۃوصول کرنے کے لیے کیا کرتے ہیں ۔اسی طرح ایسے ادارے قائم کرنے کی بھی گنجائش نکل آئے گی جو خاص طور پر تحصیل وصرف زکاۃ ہی کے لیے قائم ہوں ۔ان کے منتظمین بھی عاملین علیہا قرار پائیں گے، اور صرف زکاۃ کے معاملے میں ان کے ہاتھ بھی تملیک کے فتوے سے باندھنے کی ضرورت نہ رہے گی۔
میرے نزدیک اگر قرآن کے الفاظ کی عمومیت نگاہ میں رکھی جائے تو صرف مذکورہ بالا عاملین ہی پر ان کا اطلاق نہیں ہوتا بلکہ دوسرے بہت سے کارکن بھی اس تعریف میں آتے ہیں ۔ مثلاً:
ایک یتیم کا ولی، ایک بیماریا اپاہج کی خبر گیری کرنے والا،اور ایک بے کس بوڑھے کا نگہبان بھی ’’عامل ‘‘ہے۔ اسے زکاۃ وصول کرکے ان لوگوں کی ضروریات پر خرچ کا حق ہے، اور اس میں سے معروف طریقے پر اپنے عمل کی اجرت بھی وہ چاہے تو لے سکتا ہے۔
زکاۃ کی رقم اگر ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجنے کی ضرورت پیش آئے تو اس میں سے ڈاک خانے یابنک(bank) کی اجرت دی جاسکتی ہے۔کیوں کہ اس خدمت کو انجام دینے کی حد تک وہ بھی ’’عاملین علیہا‘‘ ہوں گے۔
زکاۃ وصول کرنے ،زکاۃ کے اموال ایک جگہ سے دوسری جگہ حسب ضرورت لے جانے،یا مستحقین زکاۃ کی مختلف ضروریات پوری کرنے کے لیے ریل، بس،ٹرک، تانگے،ٹھیلے وغیرہ جو استعمال کیے جائیں ،ان کے کرایے مال زکاۃ سے دیے جا سکتے ہیں ۔ کیوں کہ یہ خدمات انجام دیتے وقت یہ سب عاملین علیہا میں ہی شمار ہوں گے۔
مستحقین زکاۃ کی خدمت کے لیے جس قدر بھی ملازم اور مزدور استعمال کیے جائیں گے،ان سب کی تنخواہیں اور اجرتیں زکاۃ کی مدسے دی جاسکتی ہیں ، کیوں کہ وہ عاملین علیہا میں داخل ہیں ۔قطع نظر اس سے کہ کوئی ریلوے اسٹیشن پر زکاۃ کے غلے کی بوریاں ڈھوئے، یا کوئی غریب مریضوں کی خدمت کے لیے گاڑی چلاے ،یا کوئی یتیم بچوں کی نگاہ داشت کرے۔
اب رہ جاتا ہے یہ سوال کہ آیا عاملین علیہا کے تصرفات پر کوئی ایسی پابندی ہے کہ وہ مستحقین زکاۃ کی خدمت کے لیے عمارات نہ بنوا سکیں اورا شیائے ضرورت مثلاً گاڑیاں ،دوائیں ، آلات، کپڑے وغیرہ نہ خرید سکیں ؟ میں کہتا ہوں کہ حنفی تأویل آیت کے لحاظ سے یہ پابندی صرف زکاۃ ادا کرنے والے پر عائد ہوتی ہے۔وہ خود بلاشبہہ ان تصرفات میں سے کوئی تصرف نہیں کر سکتا۔ اس کا کام صرف یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے فرمان کی رو سے زکاۃ’’ جن کے لیے‘‘ ہے، ان کی یا ان میں سے کسی کی ملک میں دے دے۔ رہے عاملین علیہا ، تو ان پر اس طرح کی پابندی عائد نہیں ہوتی۔ وہ تمام مستحقین زکاۃ کے لیے بمنزلۂ ولی یا وکیل ہیں اور اصل مستحق اس مال میں جتنے تصرفات کرسکتا ہے، وہ سب تصرفات اس کے ولی یا وکیل ہونے کی حیثیت سے یہ بھی کرسکتے ہیں ۔وہ جب فقرا ومساکین کی ضروریات کے لیے کوئی عمارت بنائیں یا کوئی گاڑی خریدیں ،تو یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے بہت سے فقیروں اور مسکینوں نے، جن کو فرداً فرداًزکاۃ ملی تھی،باہم مل کر ایک عمارت بنوالی،یا ایک سواری خرید لی۔ جس طرح ان کے اس تصرف پر کوئی پابند ی نہیں ہے،اسی طرح ان کے وکیل یا ولی پر بھی کوئی پابندی نہیں ہے۔
عاملین علیہا کو زکاۃدینے کا طریقہ اﷲ تعالیٰ نے اسی لیے مقررکیا ہے، اور اﷲ کے رسول ﷺنے اسی لیے ان کے ہاتھ میں زکاۃ دے دینے والے کو فرض سے سبک دوش قرار دیا ہے کہ انھیں یہ مال دے دینا گویا تمام مستحقین کو دے دینا ہے۔ وہ انھی کی طرف سے اسے وصول کرتے ہیں اور انھی کے نائب و سرپرست بن کر اسے صرف کرتے ہیں ۔ آپ ان کے تصرفات پر اس حیثیت سے ضرور اعتراض کرسکتے ہیں کہ تم نے فلاں خرچ بلا ضرورت کیا،یا فلاں چیز پر ضرورت سے زیادہ خرچ کردیا،یا اپنے عمل کی اجرت معقول حد سے زیادہ لے لی،یا کسی عامل کو معقول شرح سے زیادہ اجرت دے دی۔ لیکن کوئی قاعدہِ شرعی میرے علم میں ایسا نہیں ہے جس کی بِنا پر ان کو اس بات کا پابند کیا جاسکے کہ فلاں فلاں قسم کے تصرفات تم کرسکتے ہو اور فلاں فلاں قسم کے نہیں کر سکتے۔ قواعد شریعت انھیں ہر اس کام کی اجازت دیتے ہیں جس کی مستحقین زکاۃ کے لیے ضرورت ہو۔
خلاصۂ بحث یہ ہے کہ اس معاملے میں اصل حل طلب سوالات صرف دو ہیں :
ایک یہ کہ اگر زکاۃدینے والوں اور زکاۃ کا استحقاق رکھنے والوں کی رضا مندی سے چند غیر سرکاری آدمی زکاۃ پر کام کریں تو آیا وہ قرآن کے ارشاد کے مطابق عاملین علیہا کی تعریف میں آتے ہیں یا نہیں ؟
دوسرے یہ کہ عاملین علیہا کے ہاتھ میں زکاۃ دے دینے کے بعد ان کے تصرفات پر پھر تملیک کی قید عائد کرنے کے لیے کیا دلیل ہے؟
علماے کرام کو انھی دو سوالات پر غور کرکے کوئی فیصلہ دینا چاہیے۔ (ترجمان القرآن ، دسمبر ۱۹۵۴ء)