زکاۃ اور ٹیکس میں فرق

کیا کبھی زکاۃ کو سرکاری محصول قرار دیا گیا؟ یا وہ کوئی ایسا محصول ہے کہ حکومت محض اُس کی وصولی اور انتظام ہی کی ذمہ دار رہی ہو؟
جواب

یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ زکاۃ کوئی’’ٹیکس‘‘نہیں ہے بلکہ ایک مالی عبادت ہے۔ ’’ٹیکس‘‘ اور ’’عبادت‘‘ میں بنیادی تصور اور اخلاقی روح کے اعتبار سے زمین وآسمان کا فرق ہے۔ حکومت کے کارندوں اور زکاۃ دینے والوں میں اگر ’’عبادت‘‘ کے بجاے ’’ٹیکس‘‘ کی ذہنیت پیدا ہوجائے تو یہ ان اخلاقی وروحانی فوائد کو بالکل ہی ضائع کردے گی جو زکاۃ سے اصل مقصود ہیں ، اور اجتماعی فوائد کو بھی بہت بڑی حد تک نقصان پہنچائے گی۔حکومت کے سپرد زکاۃ کی تحصیل وتقسیم کرنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ یہ ایک سرکاری محصول ہے،بلکہ دراصل اس عبادت کا انتظام اس وجہ سے حکومت کے سپرد کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کی تمام اجتماعی عبادات میں نظم پید اکرنا ایک اسلامی حکومت کا فریضہ ہے۔اقامت صلاۃ اور امارت حج بھی اسی طرح اسلامی حکومت کے فرائض میں سے ہے جس طرح تحصیل وتقسیم زکاۃ۔ ( ترجمان القرآن،نومبر۱۹۵۰ء )