’زیادہ سے زیادہ صرف کرو‘ کی پالیسی

میں معاشیات کا طالب علم ہوں ۔اس لیے اسلامی معاشیات کے سلسلے میں مجھے جس قدر کتابیں مل سکی ہیں ،میں نے ان کا مطالعہ کیا ہے۔’’سود‘‘ کے بعض ابواب میں نے کئی کئی بار پڑھے ہیں ۔ لیکن بعض چیزیں سمجھ میں نہیں آتیں ۔جو کہ درج ذیل ہیں ۔ کچھ دن ہوئے ہیں ،میں نے آپ کو یہ سوال لکھا تھا کہ آپ خرچ پر جس قدر زور دیتے ہیں ،اس کا نتیجہ صرف یہی ہوگا کہ اسلامی ریاست میں سرماے کی شدید کمی ہوجائے گی اور ملک کی صنعتی ترقی رک جائے گی۔اس کا جواب آپ کی طرف سے یہ دیا گیا تھا کہ ’’سود‘‘ میں اس کا جواب موجود ہے۔متعلقہ ابواب کو دوبارہ پڑھا جائے۔ میں نے کئی بار ان ابواب کو پڑھا ہے اور میرا اعتراض قائم ہے۔لہٰذا میں آپ کے پیش کردہ دلائل کو اپنے الفاظ میں بیان کرتا ہوں اور پھر اپنا اعتراض پیش کرتا ہوں ۔ آپ کا استدلال یہ ہے کہ لوگ دل کھول کر خرچ کریں تو ہر چیز کی مانگ بڑھے گی۔ا س کا نتیجہ یہ ہوگا کہ producersاپنی پیدا وار بڑھائیں گے۔ یعنی زیادہ عوامل کو روزگار مہیا کریں گے۔عوامل پیداوار کی بڑھتی ہوئی آمدنی کے نتیجے میں چیزوں کی مانگ اور بڑھے گی۔غرض کہ معاشی خوش حالی کا ایسا چکر چلے گا جس سے کہ ایک طرف عوامل پیدا وار کی آمدنی اور معیار زندگی بلند ہوتا چلا جائے گا اور دوسری طرف صاحب پیدا وار کی بکری اور منافع بڑھتاچلا جائے گا۔ اس کے بعد آپ یہ کہتے ہیں کہ صنعتوں کے لیے سرمایہ بڑھے ہوئے منافع اور بڑھتی ہوئی آمدنی سے بچی ہوئی رقم میں سے فراہم ہوجائے گا۔ اب میں اپنے اعتراضات بیان کرتا ہوں ۔ میں شروع ہی میں یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ سود کی بندش سے پس اندازی کا سلسلہ رک جانے کا مجھے کوئی خدشہ نہیں ہے۔ میرا سارا اعتراض یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ خرچ کرو کی پالیسی صحیح پالیسی نہیں ہے۔ آپ کے پورے استدلال کی تہ میں یہ مفروضہ کام کررہا ہے کہ ملک پہلے سے ہی پوری طرح صنعتی ترقی کرچکا ہے۔اب صرف سالانہdepreciation اورreplacement کے لیے سرماے کی ضرورت ہے۔دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ لوگوں کی پس انداز کرنے کی عادت کی بنا پر ملک کی موجودہ صنعتی قابلیت بھی پوری طرح استعمال نہیں ہورہی۔ پہلا نتیجہ میں نے اس طرح اخذ کیا ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ اصلاً صنعت کا اندرونی منافع ہی سرماے کی کمی کو پورا کردے گا۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب صنعت پہلے سے خوب ترقی یافتہ ہو۔ اگر صنعت بالکل نہ ہو،یا ابتدائی مراحل میں ہو،تو یہ ممکن نہیں ہے کہ اندرونی سرماے ہی سے یا تھوڑا سا باہر کا سرمایہ ملا کر ضرورت پوری ہوجائے۔مثال کے طور پر پاکستان کا شش سالہ پلان لیجیے۔ باوجود اس کے کہ یہ پلان ہماری ضروریات کے لحاظ سے انتہائی حقیر ہے اور اس میں ملکی ضروریات سے زیادہ سرماے کی فراہمی کے مسئلے کو پیش نظر رکھا گیا ہے،لیکن پھر بھی ا س پلان کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے صنعتی اور ملکی سرمایہ ملا کر اور غیر ملکی سرماے کو بھی شامل کر کے سرماے کی ضروریات پوری نہیں ہورہیں اور حکومت کو خسارے کا بجٹ بنانے پرمجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ یہی حال ہندستان، انڈونیشیا، جاپان وغیرہ ممالک کا ہے۔ جتنے پس ماندہ ممالک ہیں ، کسی کا ملکی سرمایہ بھی اس کی صنعتی ضروریات کے لیے کافی نہیں ۔ ایسی صورت میں یہ کہنا کہ صنعت کا اپنا سرمایہ اور تھوڑی بہت پس ماندہ رقم ہماری صنعتی ضروریات کے لیے کافی ہو گی، کس طرح صحیح ہے۔ اسی بِنا پر I.B.D.R.I.M.Eوغیرہ وجود میں آئے ہیں ۔ دوسرا مفروضہ میں نے اس طرح نکالا ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ جب لوگ زیادہ خرچ کریں گے تو روزگار بڑھے گا۔ پیدا کنندگان زیادہ عوامل پیدا وار سے روزگار مہیا کریں گے۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب فاضل صنعتی قوت موجود ہو۔ اگر زائدقوت موجود نہ ہو، یعنی کارخانے اپنی قوت کار سے کم کام نہ کررہے ہوں ، یا سرے سے کارخانے ہی موجود نہ ہوں ،جیسا کہ عام طور پر پس ماندہ ممالک میں ہوتا ہے،تو زیادہ خرچ کرنے کا نتیجہ سواے افراط زر کے اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ دوسرے ممالک کو چھوڑیے،خود اپنے ہی ملک میں ہمیں اس کا بہت تلخ تجربہ ہوا ہے۔دوران جنگ میں جب کارخانے دن رات کام کررہے تھے، تو روپے کی فراوانی کی بِنا پر لوگ خوب خرچ کررہے تھے،اس وقت صنعت میں براے نام ہی ترقی ہوئی تھی۔ البتہ Inflation خوب بڑھ گئی تھی۔ایسی صورت میں یہ کہنا کس طرح صحیح ہوگا کہ زیادہ خرچ کرنے سے صنعت کو فروغ ہوگا؟ کیا یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ آپ کی معاشیات تنزل پذیر ہے، ترقی یافتہ نہیں ہے؟ آپ کا نسخہ ترقی یافتہ ممالک میں تو کارگر ہوسکتا ہے پس ماندہ ممالک میں نہیں ۔ یہ تو تھا آپ کے دلائل کا جائزہ اور ان پر میرا اعتراض،اب میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرو کی پالیسی کے خلاف چند دلائل پیش کرنا چاہتا ہوں : ۱۔ ہر قسم کے اخراجات معاشی نقطۂ نظر سے مفید نہیں ہیں ۔ اگر اپنا زائد منافع صنعت میں لگا دینے کے بجاے قیمتی مکانات، قیمتی لباس،قیمتی فرنیچر وغیرہ پر صرف کردیں تو ملکی صنعت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا، بلکہ الٹانقصان ہی پہنچے گا، کیوں کہ وہ رقم صنعتی سرمایہ نہ بنی۔ علاوہ ازیں اتنی رقم صنعتی پیدا وار پر صرف ہونے سے بھی رہ گئی۔ اس طرح اتنی مالیت کی پیدا وار فروخت نہ ہوسکی۔ اور ایسے اخراجات حرام نہیں ہیں ۔ لہٰذا خرچ کرو کی پالیسی معاشی مسائل کا حل نہیں ہے۔ ۲۔ ’’زیادہ خرچ کرو‘‘ کی پالیسی پس ماندہ ممالک کے لیے نقصان دہ ہے۔ایسے ممالک میں چوں کہ ملکی صنعت براے نام ہی ہوتی ہے،اس لیے خرچ کا بیش تر حصہ درآمدہ اشیا پر صرف ہوتا ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غیر ملکی زرمبادلہ پر بہت بوجھ پڑتا ہے۔ایک تو ویسے ہی ان ممالک کے غیر ملکی وسائل بہت محدود ہوتے ہیں ، پھر اوپر سے اخراجات صارفین کا جو دبائو پڑتا ہے،اس کی وجہ سے مشینوں کی درآمد کے لیے بہت کم وسائل رہ جاتے ہیں ۔ لہٰذا ’’زیادہ خرچ کرو‘‘ کی پالیسی سے صنعتی ترقی کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔جب خرچ کا دبائو زیادہ پڑ رہا ہو تو یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ consumption goods کی درآمد بند کردی جائے۔کیوں کہ پھر ملک میں افراط زر کا چکر چلنے لگے گا۔ان دونوں صورتوں کا تجربہ ہم نے خوب کیا ہے۔پہلی صورت کا تجربہ فضل الرحمٰن صاحب کا او۔جی۔ ایل تھا۔دوسری صورت کا تجربہ۱۹۵۳ء سے ہورہا ہے۔ اور دونوں تجربات کے نتائج سب کے سامنے ہیں ۔ ۳۔ ’’زیادہ سے زیادہ خرچ کرو‘‘ کی پالیسی اور بسرعت صنعتی ترقی کی خواہش بالکل متضاد ہیں ۔ہر ملک کے وسائل محدود ہوتے ہیں ۔ان وسائل کو دو طرح سے خرچ کیا جاسکتا ہے۔consumtion پر اور productionپر جتنے زیادہ وسائل consumtion demand کو پورا کرنے کے لیے صرف کیے جائیں گے، اتنے ہی کم وسائلproduction کو پورا کرنے کے لیے رہ جائیں گے۔ یہاں الہ دین کا چراغ نہیں ہے کہ سرمایہ جب چاہا، جتنا چاہا، جس غرض کے لیے چاہا، مہیا ہوگیا، اور مستقبل کے متعلق فکر بھی نہ کرنی پڑی۔اس بات کو ثابت کرنے کے لیے بے شمار مثالیں دی جاسکتی ہیں ۔ میں صرف ایک عام فہم مثال دینے پر اکتفا کرتا ہوں ۔انگلستان میں آج بھی رہائشی مکانات کی بہت قلت ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ لوگ بنانا نہیں چاہتے، بلکہ وجہ یہ ہے کہ وسائل کی کمی زیادہ مکانات بنانے کی اجازت نہیں دیتی۔جتنا زیادہ سرمایہ لوہا سیمنٹ میں صرف کیا جائے گا ،اتنا ہی کم دوسری صنعتوں کے لیے رہ جائے گا۔ اسی لیے معاشی کونسل ہر صنعت کے لیے تمام عوامل کا کوٹا مقرر کردیتی ہے تاکہ سب کو کچھ نہ کچھ حصہ مل جائے اور کوئی کام بند نہ ہو۔ ۴۔ کوئی پس ماندہ ملک بغیر consumption expenditure کو کم کیے اور بغیر اپنی قومی آمدنی کا خاصا بڑا حصہ پس انداز کیے ترقی نہیں کرسکتا۔ بیرونی امداد اور بیرونی سرماے کی بڑی سے بڑی رقوم بھی ایسے ملک کے سرماے کی ضروریات کو پورا نہیں کرسکتیں ۔اگریہ ممالک consumption expenditure کو کم کرنے اور زیادہ سے زیادہ پس انداز کرنے پر تیار نہیں ہیں تو پھر صنعتی ترقی کے خواب ہی دیکھتے رہیں ۔ان خوابوں کے پورا ہونے میں بہت وقت لگے گا اور بہت قربانیاں دینی پڑیں گی۔ اس دعوے کا بہترین ثبوت روس اور جاپان پیش کرتے ہیں ۔ گو کہ سیاسی اعتبار سے دونوں ممالک میں بعد المشرقین ہے، لیکن معاشی ترقی کے لیے دونوں نے ایک ہی ذریعہ اختیار کیا۔ دونوں ہماری طرح ہی بدحال تھے،دونوں کو غیر ملکی سرمایہ نہیں ملا اور دونوں سرعت سے صنعتی ترقی کے خواہاں تھے۔ لہٰذا انھوں نے consumption expenditureکو کم کیا اور قومی آمدنی کا ایک خاص حصہ جبراً پس انداز کیا اور اس سرماے سے اپنی صنعتیں کھڑی کیں ۔
جواب

آپ کے ] سوال[ کا مختصر جواب حاضر ہے۔ تفصیلی بحث کی فرصت نہیں ۔ صرف اشارات پر اکتفا کرتا ہوں ۔
آپ کا پہلا اعتراض دو مفروضوں پر مبنی ہے۔ایک یہ کہ’’ صرف کرو‘‘ کی تبلیغ فوراً یہ نتیجہ دکھادے گی کہ لوگ بے تحاشا صرف کرنا شروع کردیں گے اور روپیا بچانے یا کام پر لگانے کے سارے رجحانات بھی ختم ہوجائیں گے۔دوسرے یہ کہ ’’صرف کرو‘‘ سے مراد اپنے اوپر ہی صرف کرنا اور ضروریات سے گزر کر تعیشات پر صرف کردینا ہے۔حالاں کہ یہ دونوں ہی باتیں درست نہیں ہیں ۔ صرف کرنے کا رجحان بتدریج بڑھے گا۔ اس دوران میں اگر ساتھ ساتھ صنعتی ترقی کے لیے بھی کوشش جاری رہے تو اس کام کے لیے روپیا ملتا رہے گا اور ان دونوں چیزوں کی متوازن نشو ونما سے جیسے جیسے صنعتیں بڑھیں گی،ان کے پیدا کردہ مال کی کھپت بھی بڑھتی اور صنعتوں کے لیے مزید ترقی کا سامان لاتی چلی جائے گی۔پھر صرف کردینے سے ہماری مراد صرف اپنی ہی ذات پر صرف کرنا نہیں ،بلکہ انفاق فی سبیل اﷲ بھی ہے، اس لیے روپے کا ایک بڑا حصہ ان طبقوں میں جائے گا جن کی قوت خرید بحالت موجودہ بہت گھٹی ہوئی ہے اور وہ قوت خرید پیدا ہوجانے کے بعد اپنی ہر قسم کی ضروریات لینی شروع کردیں گے، جن سے تمام مختلف قسم کی صنعتوں کی آب یاری ہوگی۔ میرے ان دونوں بیانات کے پیچھے یہ بات بنیادی مفروضے کے طور پر کام کررہی ہے کہ ملک کا نظام ایسے دانش مند لوگوں کے ہاتھوں چل رہا ہو جو ایک طرف اخلاق عامہ کی اصلاح اور صحت مند ذہنیت کی تخلیق کررہے ہوں ، اور دوسری طرف تمام ان ذرائع کو جو ملک کے اندر فراہم ہوسکتے ہوں ،ترقی کے کاموں پر ہوشیاری کے ساتھ لگاتے چلے جارہے ہوں ۔ (ترجمان القرآن، جون ۱۹۵۷ء)