سات آسمانوں کی حقیقت

آپ نے سورۂ البقرہ کے حاشیہ نمبر۳۴ میں لکھا ہے کہ سات آسمانوں کی حقیقت کا تعین مشکل ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ سات آسمانوں سے انکار کر رہے ہیں ۔ یا تو آپ سے اسی طرح کی غلطی ہوئی ہے جیسی غلطیاں دوسری تفاسیر میں موجود ہیں ، یا پھر غلطی نہیں تو آپ یہ کیوں لکھتے ہیں کہ اس سے مراد یا یہ ہے یا وہ ہے۔آپ صاف طور پر کسی ایک مفہوم کا اقرار یا انکار کیو ں نہیں کرتے؟
جواب

اگر سات آسمانوں کی حقیقت کسی کو معلوم ہو تو وہ براہِ کرم اس کو ضرور بیان کرے۔میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ اس کی حقیقت متعین کرنا مشکل ہے، اور اگر کسی ایک زمانے کے’’علم ہیئت‘‘کی بِنا پر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ قرآن کا منشا بھی وہی ہے جو اس خاص زمانے کا علم ہیئت بیان کررہا ہے تو وہ سخت غلطی کرتا ہے۔ علم ہیئت کے نظریات ومشاہدات بدلتے رہتے ہیں ۔ان میں سے کسی چیز کو قرآن کی طرف منسوب کردینا درست نہیں ہے۔ آپ حضرات اپنے مدرسوں میں جس علم ہیئت کو پڑھتے پڑھاتے رہے ہیں ، اور جس کی بِنا پر قدیم مفسرین میں سے بہتوں نے آسمان کی حقیقت بیان کی ہے،اب اس کی بساط مدت ہوئی لپیٹی جاچکی ہے اور نئے مشاہدات نے اس علم کی دنیا ہی بدل دی ہے۔ان چیزوں پر اگر آپ لوگ آج اصرار کریں گے تو غلطی کریں گے، اور اگر ان کو قرآن کی طر ف منسوب کریں گے تو لوگوں کے ایمان بھی خطرے میں ڈالیں گے۔
(ترجمان القرآن ، جون ۱۹۵۶ء)