سنت اور عادت کا اُصولی فرق اور ڈاڑھی کی مقدار

آپ نے مظاہر تقویٰ پر اپنے خیالات کی توثیق فرماتے ہوئے سنت وبدعت کے بارے میں یہ الفاظ تحریر فرمائے ہیں کہ’’سنت وبدعت وغیرہ اصطلاحات کے ان مفہومات کو میں غلط،بلکہ دین میں تحریف سمجھتا ہوں جو آپ کے ہاں رائج ہیں ‘‘۔عرض ہے کہ یہ مسئلہ دراصل اُصولی ہے۔اس پر اگر اطمینا ن بخش فیصلہ ہوجائے تو بہت سے جزوی مسائل ،بلکہ اکثر نزاعات اور ذہنی اُلجھنیں ختم ہوجائیں ۔لہٰذا سنت اور عادت کی ایسی جامع تعریف فرما دیجیے جو مانع بھی ہو اوراس کے ساتھ ہی بدعت کے متعلق بھی اپنی تحقیق سے ممنون فرمائیں ۔ مزید توضیحِ مقام کے لیے عرض ہے کہ آپ کا یہ ارشاد کہ: ’’آپ کا یہ خیال کہ نبی ﷺ جتنی بڑی ڈاڑھی رکھتے تھے،اتنی ہی بڑی ڈاڑھی رکھنا سنتِ رسولؐ یا اسوۂ رسولؐ ہے،یہ معنیٰ رکھتا ہے کہ آپ عاداتِ رسول کو بعینہٖ وہ سنت سمجھ رہے ہیں جس کے جاری اور قائم کرنے کے لیے نبی ﷺ اور دوسرے انبیا ؊ مبعوث کیے جاتے رہے۔‘‘({ FR 2172 })میرے حسب حال نہیں ہے ۔اگرچہ میں مطلق اعفاے لحیہ کو سنتِ رسولؐ سمجھتا ہوں ،مگر اسے غرضِ بعثت ومقصدِ رسالت تو آج سے دس سال قبل بھی نہیں سمجھتا تھا اور نہ اب ہی اس غلط فہمی میں مبتلا ہوں ۔ میں تو یہ یقین رکھتا ہوں کہ مقصدِ بعثت فقط ایک ہی سنت ہے اور وہ ہے اقامتِ دین،یا قیامِ اطاعت الٰہیہ۔ باقی اُمور علیٰ حسب المدارج اہمیت رکھتے ہیں ۔اس سنت کے ہم پلاّ دیگر سنتیں تو کیا،فرائض شرعیہ مثلاً عمارت مسجد حرام اور سقایۃ الحاج وغیرہ اُمور بھی نہیں ہیں ۔ اورمیرے نزدیک یہی وہ سنت ہے جس کے اِحیا کو سو شہیدوں کے اجر کا ہم پلاّقرار دیا گیا ہے۔ہاں حضورﷺ کے ذاتی اسوۂ اعفاے لحیہ وغیرہ کو سنت مابعد الفرائض الشرعیہ تاحال سمجھتا ہوں اور اسی کی توثیق یا تصحیح کے لیے یہ استفسار پیش خدمت ہے۔
جواب

سنت اور عادت کی تعریف اور فرق
سنت کے متعلق لوگ عموماً یہ سمجھتے ہیں کہ نبی ﷺ نے جو کچھ اپنی زندگی میں کیا ہے،وہ سب سنت ہے۔لیکن یہ بات ایک بڑی حد تک درست ہونے کے باوجود ایک حد تک غلط بھی ہے۔دراصل سنت اس طریق عمل کو کہتے ہیں جس کے سکھانے اور جاری کرنے کے لیے اﷲتعالیٰ نے اپنے نبی کو مبعوث کیاتھا۔اس سے شخصی زندگی کے وہ طریقے خارج ہیں جو نبی نے بحیثیت ایک انسان ہونے کے یا بحیثیت ایک شخص ہونے کے، جو انسانی تاریخ کے خاص دور میں پیدا ہوا تھا،اختیار کیے۔یہ دونوں چیزیں کبھی ایک ہی عمل میں مخلوط ہوتی ہیں ، اور ایسی صورت میں یہ فرق وامتیاز کرنا کہ اس عمل کا کون سا جز سنت ہے اور کون سا جز عادت،بغیر اس کے ممکن نہیں ہوتا کہ آدمی اچھی طرح دین کے مزاج کو سمجھ چکا ہو۔
اُصولی طور پر یوں سمجھیے کہ انبیا ؊ انسان کو اخلاق صالحہ کی تعلیم دینے اور زندگی کے ایسے طریقے سکھانے کے لیے آتے رہے ہیں جو فِطْرَتَ اللہِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْہَا (الروم :۳۰ ) ’’اس فطرت پر جس پر اللّٰہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے‘‘ کے ٹھیک ٹھیک منشا کے مطابق ہوں ۔ ان اخلاقِ صالحہ اور فطری طریقوں میں ایک چیز تو اصل ورُوح کی حیثیت رکھتی ہے اور دوسری چیز قالب ومظہر کی حیثیت۔ بعض اُمور میں رُوح اور قالب دونوں اسی شکل میں مطلوب ہوتے ہیں جس شکل میں نبیؐ اپنے قول وعمل سے ان کو واضح کرتا ہے، اور بعض اُمور میں رُوح اخلاق وفطرت کے لیے نبیؐ اپنے مخصوص تمدنی حالات اور اپنی مخصوص افتادِ مزاج کے لحاظ سے ایک خاص عملی قالب اختیار کرتا ہے اور شریعت کا مطالبہ ہم سے صرف یہ ہوتا ہے کہ ہم اس روحِ اخلاق وفطرت کو اختیار کریں ۔رہا وہ عملی قالب جو پیغمبرؐ نے اختیار کیاتھا، تو اسے اختیار کرنے یا نہ کرنے کی شرعاً ہم کو آزادی ہوتی ہے۔پہلی قسم کے معاملات میں سنت رُوح اورقالب دونوں کے مجموعے کا نام ہے، اور دوسری قسم کے معاملات میں سنت صرف وہ رُوح اِخلاق وفطرت ہے جو شریعت میں مطلوب ہے، نہ کہ وہ عملی قالب جو صاحب ِشریعتؐ نے اس کے اظہارکے لیے اختیار کیا۔
مثال کے طور پر دین کا منشا یہ ہے کہ ہم اﷲ تعالیٰ کی عبادت اور اس کا ذکر کریں ۔اس کے لیے نبی نے بعض اعمال تو ایسے اختیار کیے جن کی روح اور عملی قالب دونوں سنت ہیں اور دونوں کی پیروی ہم پر لازم ہے،مثلاً نماز،روزہ، حج ،زکاۃ وغیرہ۔ اور بعض طریقے آپﷺ نے ایسے اختیار کیے جن کی رُوح تو ہمارے اعمال میں ضرور پائی جانی چاہیے لیکن قالب کی ہو بہو پیروی کرنا لازم نہیں ہے،بلکہ آزادی دی گئی ہے کہ ہم اس رُوح کے ظہور کے لیے جوعملی قالب مناسب سمجھیں اختیار کرلیں ، مثلاً دُعائیں اور وہ عام اذکارجو حضورﷺ وقتاًفوقتاً کرتے تھے،ہم پر یہ لازم نہیں ہے کہ ہم بعینہٖ انھی الفاظ میں دعائیں مانگیں جن الفاظ میں حضورؐ مانگتے تھے۔ البتہ سنت کی پیروی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان دعائوں کے طرز اور ان کی معنوی خصوصیات کو ملحوظ رکھیں اور جن الفاظ میں بھی دعائیں مانگیں ان کے اندر نبی ﷺ کی دعائوں کی رُوح موجود ہو۔ اسی طرح اذکار میں سنت صرف یہ ہے کہ آدمی اپنی زندگی کے مختلف حالات واعمال میں خدا کو یاد کرتا رہے۔اس سے استفادہ کرے، اس سے مدد مانگے، اس کا شکر ادا کرے اور اس سے طلبِ خیر کرے۔ اس سنت کو حضور ﷺ نے اپنی عملی زندگی میں ان مختلف اذکار کے ذریعے سے ظاہر اور جاری کیا جو حدیث میں مذکور ہیں ۔اگر کوئی شخص ان اذکار کو لفظ بلفظ یاد کرکے اسی طرح ان کا التزام کرے جس طرح حدیث میں بیان ہوا ہے، تو یہ مستحسن یا مستحب تو ہوسکتا ہے لیکن اسے اتباع سنت کا لازمی تقاضا نہیں کہا جاسکتا۔ اگر کوئی شخص اس سنت کو اچھی طرح ذہن نشین کرکے کسی دوسرے طریقے سے اس پر عمل درآمد کرے اور اس کے لیے دوسرے الفاظ اختیار کرلے تب بھی وہ بدستور متبع سنت رہے گا اور اس پر خلا ف وزریِ سنت کا الزام عائد نہ ہوگا۔
یہی فرق تمدنی اور معاشرتی معاملات میں بھی ہے۔مثلاً لباس میں جن اخلاقی و فطری حدود کو قائم کرنانبیؐ کے مقاصد بعثت میں تھا وہ یہ ہیں کہ لباس ساتر ہو، اس میں اسراف نہ ہو، اس میں تکبر کی شان نہ ہو،اس میں تشبہّ بالکفار نہ ہو،وغیرہ۔ اس روحِ اخلاق وفطرت کا مظاہرہ نبی ﷺ نے جس لباس میں کیا،اس میں بعض چیزیں تو ایسی ہیں جن کی پیروی جوں کی توں کرنی چاہیے،جیسے ستر کے حدود اور اسبالِ ازار سے اجتناب اور ریشم وغیرہ کے استعمال سے پرہیز۔ اور بعض چیزیں ایسی ہیں جو حضورؐ کے اپنے شخصی مزاج اور قومی طرز معاشرت اور آپؐ کے عہد کے تمدن سے تعلق رکھتی ہیں ۔ان کو سنت بنانا نہ تو مقصود تھا، نہ ان کی پیروی پر اس دلیل سے اصرار کیا جاسکتا ہے کہ اس حدیث کی رو سے اس طرزِ خاص کا لبا س نبی ﷺ پہنتے تھے،اور نہ شرائع الٰہیہ اس غرض کے لیے آیا کرتی ہیں کہ کسی شخص خاص کے ذاتی مذاق یا کسی قوم کے مخصوص تمدن یا کسی خاص زمانے کے رسم ورواج کو دنیا بھر کے لیے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سنت بنادیں ۔
سنت کی اس تشریح کو اگر ملحوظ رکھا جائے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ جو چیزیں اصطلاح شرعی میں سنت نہیں ہیں ،ان کو خواہ مخواہ سنت قرار دے دینا من جملہ ان بدعات کے ہے جن سے نظامِ دینی میں تحریف واقع ہوتی ہے۔
ڈاڑھی کی مقدار
اب خاص اس ڈاڑھی کے معاملے کو لے لیجیے جس پر اس بحث کی ابتدا ہوئی ہے۔اس معاملے میں جس روحِ اخلاق وفطرت کو اﷲ تعالیٰ ہماری عملی زندگی میں نمایاں دیکھنا چاہتا ہے،وہ صرف یہ ہے کہ مونچھیں کم کی جائیں اور ڈاڑھی بڑھائی جائے۔ اسی کی ہدایت نبی ﷺ نے ہم کو دی ہے اور یہی سنت ہے۔ اب رہی اس کی عملی صورت، تو اس کا کوئی تعین نبیﷺ نے اپنے ارشاد سے نہیں فرمایا، حالاں کہ کوئی امر اس میں مانع نہیں تھا کہ آپ اعفاے لحیہ کی مقدار اور قصِّ شارب کی حد واضح طور پر مقرر فرما دیتے یا کم از کم یہی فرما دیتے کہ ڈاڑھی اور مونچھ کی ٹھیک ٹھیک وہی وضع رکھو جو میری ہے، جس طرح نماز کے متعلق حضورﷺنے فرما دیا کہ اسی طر ح پڑھو جس طرح میں پڑھتا ہوں ۔ پس جب کہ آپؐ نے اس معاملے میں کوئی حد مقرر نہیں کی اور صرف ایک عام ہدایت دے کر ہم کو چھوڑ دیا تو اس سے یہ بات خودبخود ظاہر ہوتی ہے کہ جو روح اخلاق وفطرت اس معاملے میں مطلوب ہے، اس کامنشا پوراکرنے کے لیے صرف اتنی بات کافی اور ضروری ہے کہ آدمی ڈاڑھی رکھے اور مونچھ کم کرے۔اگر کوئی مقدار بھی اس کے ساتھ ضروری ہوتی اور اس مقدار کا قائم کرنا بھی حضورؐ کے مشن کا کوئی جز ہوتا تو آپؐ ہرگز اس کے تعین میں کوئی کوتاہی نہ کرتے۔ مجمل حکم کے دینے پر اکتفا کرنا اور تعین سے اجتناب کرنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ شریعت اس معاملے میں لوگوں کو آزادی دینا چاہتی ہے کہ وہ اعفاے لحیہ اور قصِّ شارب کی جو صورت اپنے مذاق اور صورتوں کے تناسب کے لحاظ سے مناسب سمجھیں ،اختیار کریں ۔
اب اگر ایک شخص مونچھوں کے بال مونڈ ڈالتا ہو اور دوسرا شخص انھیں اس حد تک کُتر ڈالنا چاہتا ہو کہ کھانے اور پینے میں مونچھوں کے بال آلودہ نہ ہوں ، تو ان دونوں کو اپنے عمل میں آزادی ہے اور یہ دونوں اپنی اپنی جگہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ میرے نزدیک حکم کا منشا اُس طریقے سے پورا ہوتا ہے جو میں نے اختیار کیا ہے،لیکن ان میں سے کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اپنی اس راے کو تمام دوسرے انسانوں کے لیے شریعت بنانے کی کوشش کرے اور اس کے خلاف جو شخص عمل کررہا ہو اس کو ملامت کرے۔ اگر وہ اسے شریعت بنانے کی کوشش کرے گا اور اس کے خلاف عمل کرنے والوں کو ملامت کرے گا تو یہ بدعت ہوگی۔کیوں کہ جو چیز سنت نہیں ہے،اس کو وہ زبردستی سنت بنا رہا ہے۔سنت صرف قصِّ شارب ہے، نہ کہ اس کی کوئی خاص صورت جو کسی شخص نے اپنے استنباط واجتہاد سے یا اپنے رجحانِ طبع سے اختیار کی ہو۔
اسی طرح ڈاڑھی کے معاملے میں جو شخص حکم کا یہ منشا سمجھتا ہو کہ اسے بلا نہایت بڑھنے دیا جائے ،وہ اپنی اس راے پر عمل کرے،اورجو شخص کم سے کم ایک مشت کو حکم کا منشا پورا کرنے کے لیے ضروری سمجھتا ہو وہ اپنی راے پر عمل کرے، اور جو شخص مطلقاً ڈاڑھی رکھنے والے کو( بلا قید مقدار) حکم کا منشا پورا کرنے کے لیے کافی سمجھتا ہو،وہ اپنی راے پر عمل کرے،ان تینوں گروہوں میں سے کسی کوبھی یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ استنباط واجتہاد سے جو راے اس نے قائم کی ہے، وہی شریعت ہے اور اس کی پیروی سب لوگوں پر لازم ہے۔ایسا کہنا اس چیز کو سنت قرار دینا ہے جس کے سنت ہونے کاکوئی ثبوت نہیں ہے، اور یہی وہ بات ہے جس کو میں بدعت کہتا ہوں ۔
رہا یہ استدلال کہ نبی ﷺ نے ڈاڑھی رکھنے کا حکم دیا اور اس حکم پر خود ایک خاص طرز کی ڈاڑھی رکھ کر اس کی عملی صورت بتا دی،لہٰذا حدیث میں حضورﷺ کی جتنی ڈاڑھی مذکور ہے اتنی ہی اور ویسی ہی ڈاڑھی رکھنا سنت ہے، تو یہ ویسا ہی استدلال ہے جیسے کوئی شخص یہ کہے کہ حضورؐ نے ستر عورت کا حکم دیا اور ستر چھپانے کے لیے ایک خاص طرز کا لباس استعمال کرکے بتادیا، لہٰذا اسی طرز کے لباس سے تن پوشی کرنا سنت ہے۔اگر یہ استدلال درست ہے تو میرے نزدیک آج متبعینِ سنت میں سے کوئی شخص بھی اس سنت کا اتباع نہیں کررہا ہے۔جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں ، تمدن ومعاشرت کے معاملات میں ایک چیز وہ اخلاقی اُصول ہیں جن کو زندگی میں جاری کرنے کے لیے نبی ﷺ تشریف لائے تھے اور دوسری چیز وہ عملی صورتیں ہیں جن کو نبی ﷺ نے ان اصولوں کی پیروی کے لیے خود اپنی زندگی میں اختیار کیا۔ یہ عملی صورتیں کچھ تو حضورﷺ کے شخصی مذاق اور طبیعت کی پسند پر مبنی تھیں ،کچھ اس ملک کی معاشرت پر جس میں آپ ؐ پیدا ہوئے تھے، اور کچھ اس زمانے کے حالات پر جس میں آپﷺ مبعوث ہوئے تھے۔ان میں سے کسی چیز کو بھی تمام اشخاص اور تمام اقوام اور تمام لوگوں کے لیے سنت بنادینا مقصود نہ تھا۔ (ترجمان القرآن ، جنوری ۱۹۴۶ء)