سود اور حالتِ اضطرار

بعض ہندو حضرات جو ہمارے اُصول واخلاق کے قدر دان ہیں ہمیں بَہ اخلاص یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ اگر بنک سے آپ لوگ معاملہ نہ کریں گے تو سنڈی کیٹ کے ساتھ آپ کے لیے کام کرنا مشکل ہوجائے گا بلکہ علیحدہ ہوکر بھی آپ کاروبار نہ چلاسکیں گے۔سوال یہ ہے کہ اگر واقعی ایسی صورت پیش آجائے تو ہم کیا کریں ؟کیا اضطرار اًبنک سے معاملہ کرلیں ؟
جواب

اگر کسی وقت آپ دیکھیں کہ سودی معاملات کیے بغیر بڑ ے پیمانے پر تجارت نہیں کی جاسکتی تو بجاے اس کے کہ آپ’’ اضطرار‘‘ کے بہانے سودی معاملات کریں ،بڑے پیمانے کی تجارت چھوڑدیجیے اور صرف اُس تھوڑی سی بقدر کفاف آمدنی پر قناعت کیجیے جو اﷲ حلال ذرائع سے آپ کو دے۔آپ کا یہ سوال کہ’’ کیا ہم اضطراراًبنک سے معاملہ کرلیں ؟‘‘ بڑا ہی عجیب سوال ہے۔کیا واقعی بہت کمانے کے لیے بھی آدمی کبھی مجبورومضطر ہوسکتا ہے؟ کوئی بھوکا مررہا ہو تو بے شک وہ کہہ سکتا ہے کہ میں حرام کے چند لقمے حاصل کرنے پر مجبور ہوں ،مگر کھاتا پیتا آدمی کہے کہ حرام کے ہزاروں روپے کمانے پر مجبور ہوں ، تو یہ بالکل ایک نرالی قسم کی مجبوری ہوگی۔ایسے حیلوں سے حرام کو اپنے لیے حلال کرنے کا تصور بھی آپ کے ذہن میں کبھی نہ آنا چاہیے۔پھرذرا یہ بھی تو سوچیے کہ اپنے اصولوں کی اس قدر ’’شورا شوری‘‘ کے بعد آخر کار آپ نے یہ بے نمکی دکھائی کہ ذرا سے تجارتی مفاد کو نقصان پہنچتے دیکھ کر بنک کے دروازے پر توبہ توڑ بیٹھے تو آج تک آپ نے جو کچھ کیا ہے، اس سب پر کس بُری طرح پانی پھر جائے گا۔یہ حرکت کرکے تو گویا آپ خود ہی یہ ثابت کردیں گے کہ اسلام کے اُصول صرف بیان کرنے کے لیے ہیں ، برتنے کے لیے نہیں ہیں ۔
جو ہندو دوست آپ کو یہ مشورہ دے رہے ہیں ،ان کو جواب دیجیے کہ آپ کی ہم دردی کا بہت شکریہ، مگر بجاے اس کے کہ ہم آپ کا مشورہ قبول کرکے اپنے اُصولوں کے خلاف سودی کاروبار میں مبتلا ہوں ،ہم آپ کو مشورہ دیتے ہیں کہ ہمارے ساتھ مل کر ایک مرتبہ آپ غیر سودی اُصولوں پر لین دین کر نے کا تجربہ کر دیکھیں ۔ اس تجربے سے آپ کو خود معلوم ہوجائے گا کہ یہ چیز ہمارے اور آپ کے اور سب لوگوں کے لیے سودی کاروبار سے بہتر ہے۔اگر آپ تعاون کرنے پر آمادہ ہوں تو ہم ایک غیر سودی بنک قائم کرکے اور کام یابی کے ساتھ اس کو چلا کر عملاًاس کا فائدہ آپ کو دکھا سکتے ہیں ۔
(ترجمان القرآن ، جولائی ۱۹۴۶ء)