سپاس نامے اور استقبال

ماہر القادری صاحب کے استفسار کے جواب میں اصلاحی صاحب کا مکتوب جو ’’فاران‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوا ہے،شاید آپ کی نظر سے گزرا ہو۔میرا خیال ہے کہ زیر بحث مسئلے پر اگر آپ خود اظہار راے فرمائیں تو یہ زیادہ مناسب ہوگا اس لیے کہ یہ آپ ہی سے زیادہ براہِ راست متعلق ہے۔ اور آپ کے افعال کی توجیہ کی ذمہ داری بھی دوسروں سے زیادہ خود آپ پر ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جب آپ کی خدمت میں یہ سپاس نامے خود آپ کی رضا مندی سے پیش ہورہے ہیں تو آپ اس تمدنی،اجتماعی اور سیاسی ضرورت کو جائز بھی خیال فرماتے ہوں گے۔ لیکن آپ کن دلائل کی بِنا پر اس حرکت کو درست سمجھتے ہیں ؟ میں دراصل یہی معلوم کرنا چاہتا ہوں اور غالباً ایک ایسے شخص سے جو ہمیشہ معقولیت پسند ہونے کا دعوے دار رہا ہوں ، یہ بات دریافت کرنا غلط نہیں ہے۔ جواب میں ایک بات کو خاص طور پر ملحوظ رکھیے گا اور وہ یہ کہ آپ اگر سپاس نامے کے اس پورے عمل کو جائزثابت فرما بھی دیں تو کیا خود آ پ کے اصول کے مطابق احتیاط، دانش کی روش اور شریعت کی اسپرٹ کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ فتنے میں مبتلا ہونے سے بچنے کے لیے اس سے پرہیز کیا جائے اور کنویں کی منڈیر پر چہل قدمی کرنے کے بجاے ذرا پرے رہا جائے تاکہ پھسل کر کنویں میں گر جانے کا اندیشہ نہ رہے؟ استقبال کے موقع پر پھول برسانے کو میں برا نہیں سمجھتا تھا لیکن اصلاحی صاحب اس کے جواز میں جو ثبوت لائے ہیں ،اس نے مجھے یہ ضد کرنے پر مجبور کردیا ہے کہ تحفہ، تحفہ ہے اور کسی بڑے آدمی کے استقبال کے موقع پر پھول برسانا اس کی عظمت کا اعتراف اور اس سے اپنی عقیدت کا اظہار ہے اور اس بڑے آدمی کی موجودگی میں ،یہ فعل غالباً پسندیدہ قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی کسی کی عالی ظرفی اس امر کی ضمانت دیتی ہے کہ اگر اسے عام قاعدوں سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا تو وہ بگڑ نہیں جائے گا اور نہ ہی ہمارے پاس کسی کی عالی ظرفی اور اس کے باطن کا حال معلوم کرنے کا کوئی آلہ ہے۔ اگر جواب دیتے وقت جولائی کا فاران پیش نظر رہے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ اس لیے کہ اس میں مخالف وموافق دونوں نقطہ ہاے نظر کسی قدر تفصیل کے ساتھ آگئے ہیں ۔اس کاجواب میں آپ ہی سے چاہتا ہوں ۔ آپ کے کسی معاون سے نہیں ۔ امید ہے آپ اپنی پہلی فرصت میں اس کا جواب دے دیں گے اور اس استفسار کو لغوسمجھ کر ٹالیں گے نہیں !
جواب

مولانا امین احسن صاحب تو اپنے کلام کے خود ہی شارح ہوسکتے ہیں ، ان کی طرف سے جواب دہی کا فریضہ مجھ پر عائدنہیں ہوتا۔البتہ میں خود نہ سپاس ناموں کو پسند کرتا ہوں نہ پھولوں کے ہاروں اور ان کی بارش کو۔یہ سب کچھ میری مرضی کے بغیر، بلکہ اس کے خلاف ہی ہوتا رہا ہے اور مجھے مجبوراً اس لیے گوارا کرنا پڑا ہے کہ ایک طرف سے اخلاص ومحبت کا اظہار اگر کسی نامناسب صورت میں ہو تو دوسرا فریق بسا اوقات سخت مشکل میں پڑ جاتا ہے۔ آپ ہی بتایے کہ اگر میں کسی جگہ جاکر اتروں اور وہاں بہت سے لوگ ہار لے کر آگے بڑھیں تو کیا یہ کوئی اچھا اخلاق ہو گا کہ میں ان لوگوں کو ڈانٹ ڈپٹ شروع کردوں اور ان سے کہوں کہ لے جائو اپنے ہار، میں انھیں قبول نہیں کرتا۔یا میں کسی دعوت میں بلایا جائوں اور عین وقت پر مجھے معلوم ہو کہ داعیوں نے ایک سپاس نامہ نہ صرف تیار کرارکھا ہے بلکہ طبع بھی کرالیا ہے، اور میں کہوں کہ رکھو اپنا سپاس نامہ۔ یہ چیزیں اگر قطعی حرام ہوتیں تو میں ان کو رد کردینے اور ان کے مرتکبین کو ملامت کرنے میں حق بجانب بھی ہوتا۔ مگر محض کراہت اور خوف فتنہ کم ازکم میرے نزدیک اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ میں اس پر سختی برتوں اور ان لوگوں کی دل شکنی کروں جو بہرحال مجھ سے کسی دنیوی غرض کی بِنا پر محبت نہیں رکھتے۔ میں زیادہ سے زیادہ یہی کرسکتا ہوں اور یہی کر بھی رہا ہوں کہ لوگوں سے یہ طریق اظہار اخلاص چھوڑ دینے کی گزارش کروں ۔ اس سے زیادہ اگر مجھے کچھ کرنا چاہیے تو وہ آپ مجھے بتا دیں ۔
(ترجمان القرآن ،ستمبر۱۹۵۵ء)