سیاسی انقلاب پہلے یا سماجی انقلاب؟

ہمارے ملک میں یہ احساس عام ہے کہ اسلام کے اصول واحکام پسندیدہ اور مستحسن تو ہیں مگر بحالات موجودہ قابل عمل نہیں ہیں ۔عوام و خواص میں اسلام سے جذباتی وابستگی تو ضرور ہے لیکن اسلام کا صحیح مفہوم اور آمادگی عمل بہت کم ہے۔اسلام جس ذہنی وعملی انضباط کا مطالبہ کرتا ہے، اسے دیکھ کر یہ خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسلامی قوانین کو نافذ کردیا گیا تو کہیں اس کے خلاف شدید ردعمل نہ رونما ہوجائے۔سیاسی انقلاب سے پہلے سماجی انقلاب ضروری ہے اور اصلاح کا جذبہ اوپر سے اور باہر سے پیدا کرنے کے بجاے اندر سے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔یہ صورت حال پیدا ہونے سے پہلے کیا اسلامی ریاست کا مطالبہ قبل از وقت نہیں ہے؟
جواب

اس مسئلے کی اگر پوری وضاحت کی جائے تو اس کے لیے بڑے تفصیلی جواب کی ضرورت ہے۔ لیکن مختصر جواب یہ ہے کہ بلاشبہہ سیاسی انقلاب سے پہلے ایک تمدنی، اجتماعی اور اخلاقی انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے، اور یہی اسلامی انقلاب کا فطری طریقہ ہے۔ اور بلاشبہہ یہ بات بھی درست ہے کہ اسلام کے احکام و قوانین صرف اوپر سے ہی مسلط نہیں کیے جاسکتے بلکہ اندر سے ان کے اتباع کا دلی جذبہ بھی پیدا کیا جاتا ہے۔لیکن اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ پاکستان کے قیام کی شکل میں سیاسی انقلاب رونما ہوچکا ہے۔اب یہ سوال چھیڑنا بالکل بے کار ہے کہ معاشرتی انقلاب پہلے برپا کرنا چاہیے اور سیاسی انقلاب بعد میں ۔اب تو سوال یہ پیدا ہوگیا ہے کہ جب تک قوم میں ذہنی انقلاب واقع نہ ہو، اس وقت تک آیا ہم سیاسی اختیارات کو کافرانہ اصولوں کے مطابق استعمال کرتے رہیں یا ان اختیارات کو بھی اسلامی اصولوں کے مطابق کام میں لائیں ۔ سیاسی اقتدار کا کوئی نہ کوئی مصرف اور مقصد بہرحال ہمیں متعین کرنا پڑے گا۔حکومت کی مشینری کو اخلاقی انقلاب رونما ہونے تک معطل بہرحال نہیں کیا جا سکتا۔ ایک قوم جو خدا اور اس کے رسول کی حاکمیت اور بالا دستی پر ایمان رکھتی ہو، اجتماعی اور قومی زندگی کی باگیں اس کے اپنے ہاتھ میں ہوں ،اپنا نظام حیات وہ خود تعمیر کرنے کے قابل ہو اور کوئی دوسری کافرانہ طاقت اس پر کوئی کافرانہ نظام مسلط کرنے والی نہ ہو، تو کیا اس قوم کے افراد کے لیے یہ جائز اور درست ہوسکتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو اخلاقی وعظ ونصیحت تو کرتے رہیں مگر اپنی ہیئت حاکمہ کو غیر اسلامی اصولوں کے مطابق کام کرنے کے لیے چھوڑ دیں ۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اس صورتِ حال کو گوارا کرلیں تو گو ہم انفرادی ارتداد کے مرتکب نہ ہوں ،اجتماعی اور قومی حیثیت سے ہم ضرور ارتداد کے مرتکب ہوں گے۔
پھر اس معاملے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے، اور وہ یہ ہے کہ اگر آپ اجتماعی واخلاقی انقلاب لانا چاہتے ہیں تو آپ کو غور کرنا پڑے گا کہ اس انقلاب کے ذرائع ووسائل کیا کیا ہوسکتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ان ذرائع میں تعلیم وتربیت، معاشرتی اصلاح،ذہنی اصلاح اور اسی قسم کی بہت سی چیزیں شامل ہیں ۔ انھی کے ساتھ ساتھ حکومت کے قانونی اور سیاسی ذرائع ووسائل بھی ہیں ۔حکومت کی طاقت نہ صرف بجاے خود ایک بڑا ذریعۂ اصلاح ہے، بلکہ وہ ساری اصلاحی تدابیر کو زیادہ مؤثر، نتیجہ خیز اور ہمہ گیر بنانے کا بھی ذریعہ ہے۔ اب آخر کیا وجہ ہے کہ اخلاقی انقلاب لانے کے لیے حکومت کے وسائل کو بھی استعمال نہ کیا جائے۔ہمارے ووٹوں اور ہمارے ادا کردہ ٹیکسوں اور مالیوں کے بل پر ہی تو حکومت کا سارا نظام چل رہا ہے۔ آخر ا س حماقت اور جہالت کا ارتکاب ہم کیوں کریں کہ ایک طرف انفرادی حیثیت سے ہم اسلام کے سماجی انقلاب کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کریں اور دوسری طرف حکومت کے سارے ذرائع اخلاق کے بگاڑنے اور فسق وفجور پھیلانے میں لگے رہیں ۔
(ترجمان القرآن ، ستمبر۱۹۴۵ء)