سیّدوں اور بنو ہاشم کو زکاۃدینا

مستحقین زکاۃ کے ہر طبقے میں کسی فرد کو کن حالات میں زکاۃ لینے کا حق پہنچتا ہے؟پاکستان کے مختلف حصوں میں جو حالات پائے جاتے ہیں ،ان کی روشنی میں اس امر کی وضاحت کی جائے کہ سیّدوں اور بنی ہاشم سے تعلق رکھنے والے دوسرے افراد کو زکاۃ لینے کا کہاں تک حق پہنچتا ہے؟
جواب

مستحقین زکاۃ میں سے فقیر اور مسکین اس صورت میں زکاۃ لے سکتا ہے جب کہ وہ صاحب نصاب نہ ہو۔عاملین اور مؤلفۃ القلوب صاحب نصاب ہوں تب بھی ان کو زکاۃکی مد سے دیا جاسکتا ہے۔غلام کا غلام ہونا بجاے خود اُسے اس بات کا مستحق بناتا ہے کہ اُ س کی آزادی پر زکاۃ صرف کی جائے۔قرض دار اس حالت میں زکاۃ لے سکتا ہے جب کہ وہ اپنا پورا قرض ادا کرکے صاحب نصاب نہ رہ سکتا ہو۔راہ ِخدا میں جہاد کرنے والے اگر بجاے خود صاحب نصاب بھی ہوں تو اس جہاد کے مصارف کے لیے انھیں زکاۃ دی جاسکتی ہے۔ابن السبیل ایسی صورت میں زکاۃ پاسکتاہے جب کہ حالت سفر میں وہ مدد کا محتاج ہو۔
بنی ہاشم پر زکاۃلینا حرام ہے۔مگر آج پاکستان میں یہ تحقیق کرنا بہت مشکل ہے کہ کون ہاشمی ہے اور کون نہیں ہے۔اس لیے حکومت تو ہر شخص کو زکاۃ دے گی جو اس کا حاجت مند نظر آئے۔یہ لینے والے کا اپنا کام ہے کہ اگر وہ اپنے ہاشمی ہونے کا یقین رکھتا ہو تو زکاۃ نہ لے۔ ( ترجمان القرآن،نومبر ۱۹۵۰ء )