سیکولرمعاشرہ میں مسلمانوں کی ذمہ داریاں

ضروری گزارش یہ ہے کہ ایک مضمون مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلی بعنوان ’کچھ سیکولرزم کے بارےمیں ‘ ماہنامہ الفرقان اگست ۱۹۷۰ء میں شائع ہواتھا اور وہی مضمون ہفتہ وار الجمعیۃ مورخہ ۲۶؍مارچ۱۹۷۱ء میں شائع ہواہے۔ پڑھ کر خلجان میں مبتلا ہوگیا ہوں کہ موجودہ صورت حال میں ہم ہندوستانی مسلمانوں کو کون سی راہ اختیار کرنی چاہیے جو واقعی بالکل دینی بھی ہو اور پیش آمدہ حالات میں قابل عمل بھی ہو اور تضاد اور منافقانہ روش اختیار کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔معلوم نہیں آپ نے وہ مضمون پڑھاہے یا نہیں، اگر نہ پڑھا ہوتو پہلی فرصت میں اسے پڑھیے اورہماری الجھن دورکیجیے۔ میں تذبذب میں ہوں کہ کون سی راہ اور طریقۂ کار اختیار کرنا چاہیے جو منافقت وتضاد سے پاک وصاف بھی اور قابل عمل بھی ہو۔ امید ہے کہ آپ اس گزارش اورسوال کو نظر انداز نہ کریں گے اورجواب دیں گے۔

جواب

راقم الحروف نے وہ مضمون الفرقان میں بھی پڑھا تھا اورہفتہ وار الجمیعۃ میں بھی نظر سے گزرا تھا۔ اگر آپ واضح انداز میں اپنی الجھن کا ذکر کرتے تو جواب دینے میں آسانی ہوتی۔ آپ نے اپنے خط میں تضاد اور منافقت سے بچنے کی جس خواہش کا دوبارذکر کیا ہے اس سے آپ کی جو الجھن سمجھ میں آتی ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے جواب دے رہاہوں۔ پہلے چند بنیادی باتوں پرغور کرلینا ضروری ہے۔ اس کے بغیر آپ کی الجھن دور نہیں ہوسکتی اورجواب لاحاصل ہوگا۔

سب سےپہلی بات غور کرنے کی یہ ہے کہ اسلام نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں کیا تصور عطا کیا ہے اور عقیدۂ توحید کی حقیقت کیا ہے؟

دوسری یہ کہ دنیا میں انسان کی حیثیت کیا ہے اوراس کی زندگی کامقصد ونصب العین کیا ہے؟

تیسری یہ کہ غیراسلامی نظام کو اسلامی نظام سے بدلنے کی کوشش کرنا مسلمانوں کے ذمے ہے یا نہیں ؟

چوتھی یہ کہ مذہب اور سیاست دومستقل بالذات اورالگ الگ چیزیں ہیں یا سیاست مذہب ہی کا ایک پہلو اور اس کا جزہے؟

اب میں بالترتیب اپنے خیالات وعقائد کا اظہار کرتاہوں، آپ ان پر غورکریں۔

۱- ہمیں کتاب وسنت کے مطالعہ کے بعد اس بات پر یقین حاصل ہوگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پوری کائنات کا خالق، مالک،رب، معبوداورحاکم ہے۔اس دنیا میں انسان کی حیثیت اور اس کی زندگی کامقصد بتانا اور اس کے لیے زندگی بسر کرنے کا نظام اور قانون عطاکرنا صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے اورکسی دوسرے کے لیےجائز نہیں ہے کہ وہ انسان کی انفرادی واجتماعی زندگی کے لیے شریعت وقانون بنائے۔ وہی نظام، وہی قانون اوروہی شریعت برحق ہے جو اللہ نے سیدنا محمدﷺ پرنازل کی ہے۔ یہی وہ آخری شریعت ہے جو قیامت تک کے لیے تمام بنی نوع انسان کے لیے نازل کی گئی ہے۔

۲- انسان کی حیثیت اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے خلیفہ اور نائب کی ہے۔ اور اس کی زندگی کا مقصد اپنی پوری زندگی میں خواہ انفرادی ہویا اجتماعی اللہ تعالیٰ کی مکمل بندگی کرنا ہے۔

۳- دین اسلام اس لیے نازل نہیں ہواکہ وہ غلط اور باطل ادیان کے ماتحت رہے۔ بلکہ اس لیے نازل ہواہے کہ وہ سب پرغالب رہے، کیوں کہ اسی میں اللہ کی خوشی اور اس کے بندوں کی فلاح ہے۔ اور جس طرح یہ دین پونے چودہ سوبرس پہلے قابل عمل تھا اسی طرح آج بھی ہے، اور قیامت تک رہے گا۔ غیراسلامی نظام کو اسلامی نظام سے بدلنے کی کوشش مسلمانوں پرفرض ہے، یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ ’اقامت دین ‘ مسلمانوں کا نصب العین ہے۔

۴- دین سے سیاست الگ نہیں ہے بلکہ اس کا اہم جز ہے۔ سیاست میں سب سے پہلی اور ضروری بحث اقتدار اعلیٰ (Sovereignty) کی آتی ہے۔ دین اسلام میں اقتدار اعلیٰ اور حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ ہمارے نزدیک یہ تمام باتیں کتاب وسنت سے ثابت ہیں، اب آپ غورکیجیے کہ جو لوگ ان بنیادی باتوں کو بطور عقیدہ تسلیم کرتے ہیں، انھیں اپنے وطن میں کیا کرنا چاہیے اور ان کی زندگی کا اصل مقصد کیا ہونا چاہیے ؟اگر وہ یہ عقائد رکھتے ہوئے سیکولر نظام کے علم بردار بن کرکھڑے ہوں تو کیا یہ کھلا ہوا تضادنہ ہوگا؟ میرے خیال میں یہ اتنا بڑا تضاد ہے جو اوپر بیان کیے ہوئے عقائد کی بنیاد ہی منہدم کردیتاہے۔

ہم نے موجودہ سیکولر جمہوری نظام کو آئیڈیل نظام کے طورپر قبول نہیں کیا ہے بلکہ ہم اس کو دوسرے آمرانہ نظاموں کے مقابلے میں ترجیح دیتے ہیں۔ دوبلائوں میں سے آسان بلاکو ترجیح دینا عقلاً بھی صحیح ہے اور شریعت نے بھی اسی کی تعلیم دی ہے۔ لیکن کسی آسان زحمت کو اختیارکرنے کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ وہ زحمت نہ رہی بلکہ رحمت بن گئی۔ سیکولر جمہوری نظام کو ترجیح دینے کی وجہ یہ ہے کہ اس نظام کے تحت لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کےزیادہ مواقع حاصل ہیں اور دعوت وتبلیغ اقامت دین کے حصول کا سب سے پہلا مرحلہ ہے کیوں کہ یہ درحقیقت فکری انقلاب کی دعوت ہے۔ جب تک کسی ملک کےباشندے اسلام کے اصول وعقائد پرمطمئن نہ ہوجائیں اور وہ اس کے دیے ہوئے نظام زندگی کو تمام نظاموں سے بہتر نہ سمجھ لیں وہاں اسلامی نظام قائم نہیں ہوسکتا۔اور جب تک اسلامی نظام قائم نہ ہو کوئی نہ کوئی نظام توملک میں ہوگاہی۔ اب ایک طرف ایسا نظام ہوجس میں اسلام کی دعوت پیش کی جاسکتی ہواور اس کے لیے تحریک چلائی جاسکتی ہو اور دوسری طرف ایسا نظام ہو جس میں کھلم کھلا اسلام کی دعوت دی جاسکتی ہو اور نہ اس کے لیے تحریک چلائی جاسکتی ہو تو بالکل قدرتی طورپر پہلے نظام کو ترجیح دی جائے گی۔ جس مضمون کا آپ نے حوالے دیاہے اس میں لکھا گیاہے

’’اس میں کلام نہیں کہ سیکولر حکومت کا نظریہ، اسلامی نظریہ سیاست سے جوڑنہیں کھاتا، سیاست میں اسلامی نقطۂ نظر کی بات کی جائے تو لامحالہ اس نظریہ کوبھی غیراسلامی نظریوں کی صف میں شمارکرناہوگا۔‘‘

جب سیکولر حکومت کو غیراسلامی نظریہ تسلیم کرلیا گیا تو سوال یہی پیداہوتاہے کہ کیا اس غیراسلامی نظریے کو اسلامی نظریہ سیاست سے بدلنے کی جدوجہد کرنا مسلمانوں کے لیے ضروری ہے یا نہیں ؟یہی وہ بنیادی بات ہے جو ہم سب کے لیے قابل غورہے۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہوکہ یہ جدوجہد ضروری نہیں ہے تو پھر وہ آزاد ہے کہ ملک میں رائج سیکولرحکومت کے نظریے کاپرچم اپنے ہاتھ میں لے کر اسی کی بقا کے لیے جدوجہد کرے اوراسی کو اپنی زندگی کامطمح نظر بنائے۔ لیکن جو لوگ اسے اسلامی نظریہ سیاست اور اسلامی نظام حیات سے بدلنے کی جدوجہد فرض سمجھتے ہیں وہ اپنے عقیدے کی بناپر مجبورہیں کہ اسلامی نظریہ سیاست اوراسلامی نظام حیات ہی کا پرچم اپنے ہاتھوں میں لیں اور اسی کے لیے جدوجہد کریں۔

سیکولرنظام حکومت کے تحت حقوق حاصل کرنے اور اس کی بقا اورفروغ کے لیے جدوجہد نہ کرنے میں تضاد اسی شخص کو نظر آتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے اقتدار اعلیٰ اوراس کی حاکمیت اعلیٰ پرسنجیدگی کے ساتھ غورکرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ تمام دنیا ہندوستان سمیت اللہ تعالیٰ کی ملک ہے اوروہی اس کا جائزحکم راں ہے۔ہم اصلاً اسی کی رعیت ہیں اور وہی ہمارا بادشاہ ہے۔ ہم جو حقوق حاصل کرنا چاہتے اور جن کامطالبہ کرتے ہیں وہ وہی حقوق ہیں جو اس نے ہمیں دے رکھے ہیں اور جن پراس کی مرضی کے بغیر دوسروں نے قبضہ کررکھاہے۔ہم دراصل وہ حقوق اس لیے نہیں مانگتے کہ وہ سیکولر حکومت کے دیے ہوئے ہیں۔ یہ بات اس مثال سے واضح ہوجائے گی کہ سیکولر نظام حکومت نے سود کو جائز کررکھا ہے اوراس کو اپنے شہریوں کا ایک حق تسلیم کیاہے لیکن ہم یہ حق کبھی اس سے نہیں مانگتے بلکہ اس کو حرام قرار دیتے ہیں اور مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ وہ سودی لین دین سے الگ رہیں۔ دوسری طرف سیکولر نظام حکومت نے بھی اپنے شہریوں کی جان ومال اور آبرو کے تحفظ کی گارنٹی دی ہے اوراس نے بھی اس کو اپنے شہریوں کا حق تسلیم کیا ہے اور ہم اس سے اس حق کا مطالبہ کرتے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں کہ یہ فرق کیوں ہے؟ غورکیجیے ! اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ سود کے حق کو اللہ تعالیٰ نے حرام قراردیا ہے اس لیے ہم نہ صرف یہ کے اس کا مطالبہ نہیں کرتے بلکہ اس سے خود بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بچانے کی سعی کرتے ہیں۔ اور دوسرا حق اصلاً ہمیں اللہ نے دےرکھا ہے اس لیے اگر اس میں خلل واقع ہورہاہو تو ہم اس کا مطالبہ کرتے ہیں۔ معلوم ہواکہ ہمارے مطالبہ حقوق کی اصل بنیاد سیکولر حکومت کے قوانین نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے قوانین ہیں۔ سیکولرحکومت اگر ہمیں ہمارے جائز حقوق دیتی ہے تو یہ اس کا ہم پر کوئی احسان نہیں ہے بلکہ ہم اس سےاپنے وہ حقوق حاصل کرتے ہیں جو پروہ قابض ہے۔ چوں کہ آپ کی الجھن واضح نہیں ہوئی ہے اس لیے اتنے ہی پر اکتفا کرتاہوں۔                     (مئی ۱۹۷۱ء ج۴۶ش۵)