صحابہ کرامؓ کے متعلق عقیدۂ اہلِ سنت

میں آپ کی کتاب خلافت و ملوکیت کا بغور مطالعہ کرتا رہا ہوں ۔ آپ کی چند باتیں اہل سنت و الجماعت کے اجماعی عقائد کے بالکل خلاف نظر آ رہی ہیں ۔ صحابہ کرامؓ میں سے کسی کا بھی عیب بیان کرنا اہل سنت و الجماعت کے مسلک کے خلاف ہے۔ جو ایسا کرے گا وہ اہل سنت و الجماعت سے خارج ہو جائے گا۔ آپ کی عبارتیں جو اس عقیدے کے خلاف ہیں وہ ذیل میں نقل کرتا ہوں : ’’ایک بزرگ نے اپنے ذاتی مفاد کے لیے دوسرے بزرگ کے ذاتی مفاد سے اپیل کرکے اس تجویز کو جنم دیا۔‘‘ (خلافت و ملوکیت ،ص ۱۵) ’’اب خلافت علی منہاج النبوۃ کے بحال ہونے کی آخری صورت یہ باقی رہ گئی تھی کہ حضرت معاویہؓ یا تو اپنے بعد اس منصب پر کسی شخص کے تقرر کا معاملہ مسلمانوں کے باہمی مشورے پر چھوڑ دیتے یا اگر قطع نزاع کے لیے اپنی زندگی ہی میں جانشینی کا معاملہ طے کر جانا ضروری سمجھتے تو مسلمانوں کے اہلِ علم و اہلِ خیر کو جمع کرکے انھیں آزادی کے ساتھ فیصلہ کرنے دیتے کہ ولی عہدی کے لیے امت میں موزوں تر آدمی کون ہے۔ لیکن اپنے بیٹے یزید کی ولی عہدی کے لیے خوف و طمع کے ذرائع سے بیعت لے کر انھوں نے اس امکان کا بھی خاتمہ کر دیا۔‘‘ (خلافت و ملوکیت، ص۱۴۸) براہِ کرام آپ بتائیں کہ صحابہ کرام کے بارے میں آپ اہل سنت والجماعت کے اجماعی عقیدے کو غلط سمجھتے ہیں یا صحیح؟
جواب

قبل اس کے کہ میں آپ کے سوالات کا جواب دوں براہ کرم آپ مجھے یہ بتائیں کہ
۱- آیا آپ کا عقیدہ یہ ہے کہ کوئی صحابی غلطی نہیں کر سکتا؟
۲- یا آپ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ صحابی سے غلطی ہوسکتی ہے مگر کسی صحابی سے کبھی غلطی کا صدور ہوا نہیں ہے؟
۳- یا آپ اس بات کے قائل ہیں کہ افراد صحابہ سے غلطی کا صدور ممکن بھی تھا اور صدور ہوا بھی، مگر ان کو بیان کرنا جائز نہیں ہے اور نہ صحابی کی کسی غلطی کو غلطی کہنا جائز ہے؟
ان میں سے جس بات کے بھی آپ قائل ہوں اس کی تصریح فرما دیں تاکہ مجھے یہ معلوم ہوسکے کہ آپ خود بھی اہل السنت والجماعت میں سے ہیں یا نہیں ۔ اگر آپ پہلی بات کے قائل ہیں تو وہ اہل سنت میں سے کسی کا عقیدہ بھی نہیں ہے اور اگر دوسری بات کے قائل ہیں تو اس کا غلط ہونا ایسے ناقابل انکار واقعات سے ثابت ہے جو قرآن پاک اور بکثرت احادیث صحیحہ اور اکابر اہل سنت کی نقل کردہ کثیر روایات میں بیان ہوئے ہیں ۔ اور اگر تیسری بات کے قائل ہیں تو وہ بھی قطعی بے بنیاد ہے کیونکہ متعدد مقامات پر خود قرآن مجید میں اللّٰہ تعالیٰ نے صحابۂ کرام کی بعض غلطیوں کا ذکر فرمایا ہے اور محدثین نے ان کے مفصل واقعات نقل کیے ہیں اور مفسرین میں سے شاید کسی کا بھی آپ نام نہیں لے سکتے جس نے اپنی تفسیر میں ان واقعات کو بیان نہ کیا ہو۔
رہا اہل سنت کا عقیدہ جس کا آپ ذکر فرما رہے ہیں تو وہ صرف یہ ہے کہ صحابہ پر طعن کرنا اور ان کی مذمت کرنا جائز نہیں ہے، اور اس فعل کا ارتکاب خدا کے فضل سے میں نے کبھی اپنی کسی تحریر میں نہیں کیا ہے مگر تاریخی واقعات کو کسی علمی بحث میں بیان کرنا علماے اہل سنت کے نزدیک کبھی ناجائز نہیں رہا ہے۔ نہ علماے اہل سنت نے کبھی اس سے اجتناب کیا ہے اور نہ کسی عالم نے کبھی یہ کہا ہے کہ صحابی سے اگر غلطی ہو تو اسے صحیح قرار دو، یا اس کو غلطی نہ کہو۔
آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ میں نے جو واقعات بیان کیے ہیں وہ اکابر اہل سنت ہی کی کتابوں سے ما ٔخوذ ہیں ۔ ان کا ان واقعات کو اپنی کتابوں میں نقل کرنا دو حال سے خالی نہیں ہوسکتا اگر انھوں نے صحیح سمجھتے ہوئے نقل کیا ہے تو آپ کی راے کے مطابق وہ سب بھی اہل سنت سے خارج ہونے چاہییں اور اگر غلط یا مشتبہ سمجھتے ہوئے انھیں پھیلایا اور آئندہ نسلوں تک پہنچایا ہے تو پھر آپ کو کہنا چاہیے کہ وہ کَفٰی بِالْمَرْئِ کَذِباً اَنْ یُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ کے مصداق تھے۔ (ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۶۸ء)