صحیح البخاری کا اصح الکتب ہونا

صحیح البخاری اصح الکتب بعد کتاب اﷲ ہے۔ براہِ کرم اِس کی بھی وضاحت کردیجیے کہ اصح الکتب کا مطلب آیا یہ ہے کہ بخاری بھی قرآن کی طرح حرفاً حرفاً صحیح اور غیر محرف ہے؟
جواب

]جو سوال[ آپ نے[صحیح] بخاری کے اَصَحُّ الْکُتُبِ بَعْدَ کِتَابِ اللّٰہِ ({ FR 2150 }) ہونے کے بارے میں کیا ہے،اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ یقینی ذریعے سے تو ہم کو کتاب اﷲ پہنچی ہے،کیوں کہ اسے ہزارہا آدمیوں نے بتواتر نقل کیا ہے۔مگر اس کے بعد جس کتاب کے مندرجات ہم کو معتبر ترین سندوں سے پہنچے ہیں ، وہ بخاری ہے، کیوں کہ دوسری تمام کتابوں کی بہ نسبت اس کتاب کے مصنف نے سندوں کی جانچ پڑتال زیادہ کی ہے۔ یہ صحت کا حکم صرف اسناد سے متعلق ہے اور یقیناً بالکل صحیح ہے۔ رہی مضامین کی تنقید بلحاظ درایت، تو اس کے متعلق میں اوپر اشارہ کرچکا ہوں کہ یہ کام اہل روایت کے فن سے بڑی حد تک غیر متعلق تھا،اس لیے یہ دعویٰ کرنا صحیح نہیں کہ بخاری میں جتنی احادیث درج ہیں ،ان کے مضامین کو بھی جوں کا توں بلاتنقید قبول کرلینا چاہیے۔
اس سلسلے میں یہ بات بھی جان لینے کی ہے کہ کسی روایت کے سنداً صحیح ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کا نفس مضمون بھی ہرلحاظ سے صحیح اور جوں کا توں قابل قبول ہو۔ ہم کو خود اپنی زندگی میں بارہا اس کا تجربہ ہوتا رہتا ہے کہ ایک شخص کی گفتگو کو جب سننے والے دوسروں کے سامنے نقل کرتے ہیں تو صحیح روایت کی کوشش کرنے کے باوجود ان کی نقل میں مختلف قسم کی کوتاہیاں رہ جاتی ہیں ۔مثلاً کسی کو پوری بات یاد نہیں رہتی اور وہ اُس کا صرف ایک حصہ نقل کرتا ہے۔کسی کی سمجھ میں بات اچھی طرح نہیں آتی،اس لیے وہ ناقص مفہوم ادا کرتا ہے۔ کوئی دوران گفتگو میں کسی وقت پہنچتا ہے اور اس کو معلوم نہیں ہوتا کہ پہلے کیا بات ہورہی تھی۔اس طرح کے متعدد نقائص ہونے کی وجہ سے بسا اوقات نیک نیتی اورصداقت کے باوجود قائل کی بات اپنی صحیح صورت میں نقل نہیں ہوتی۔ اور ایسا ہی معاملہ حالات اور افعال کی رودادیں بیان کرنے میں بھی پیش آیا کرتا ہے۔کبھی ان نقائص کو دوسری روایتیں رفع کردیتی ہیں اور سب کو ملا کر دیکھنے سے پوری تصویر سامنے آجاتی ہے۔ اور کبھی ایک ہی روایت موجود ہوتی ہے(جسے اصطلاح علم حدیث میں غریب کہتے ہیں ) اس لیے وہ نقص علم روایت کی مدد سے رفع نہیں کیا جاسکتا اور درایت سے کام لے کر یہ راے قائم کرنی پڑتی ہے کہ اصل بات کیا ہوسکتی تھی، یا یہ کہ یہ بات اپنی موجودہ صورت میں قابل قبول ہے یا نہیں ، یا یہ کہ نبی ﷺ کے مزاج اور اندازِ گفتگو سے یہ چیز مناسبت رکھتی ہے یا نہیں ۔اس حد تک حدیث میں تحقیق کرنے کی صلاحیت جن لوگوں میں نہ ہو،انھیں اوّل تو حدیث کی کتابیں پڑھنی ہی نہیں چاہییں ،یا پڑھیں تو کم ازکم ان کو فیصلے صادر نہ کرنے چاہییں ۔ (ترجمان القرآن، اکتوبر ونومبر۱۹۵۲ء)