صفاتِ الٰہی میں تناقُض ہے یا مُطابَقت

آپ نے تفہیمات حصہ اوّل کے مضمون ’’کو تاہ نظری‘‘ میں کسی مستفسر کے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ ’’اللّٰہ رحم و کرم اور رأفت و شفقت کا منبع ہونے کے باوجود چھوٹے اور معصوم بچوں پر مصائب اور تکالیف کیوں وارد کرتا ہے؟‘‘ خدائی نظام میں وقوع پذیر ہونے والے ’’شرور‘‘ کی عقلی توجیہ کے لیے مندرجہ ذیل مفروضات کا سہارا لیا ہے: (۱) خدا کے پیش نظر پوری کائنات کا اجتماعی مفاد ہے جسے آپ خیرِ کل سے تعبیر کرتے ہیں ۔ (۲) خیرِ کل کا حصول کسی نظام ہی کے ذریعے ممکن ہے اور چوں کہ اللّٰہ حکیم و دانا ہے لہٰذا اس نے ضرور اس مقصد کے لیے کسی ایسے نظام ہی کو منتخب کیا ہوگا جو اپنی کارکردگی اور افادیت کے لحاظ سے سب سے زیادہ بہتر ہو۔ (۳)اگر موجودہ نظام سے زیادہ بہتر کوئی ایسا نظام ہوتا، جس میں ان ’’شرور‘‘ کے وقوع کے بغیر خیرِ کلی کا حصول ممکن ہوسکتا تو یقینا اللّٰہ اس بہتر نظام کو منتخب کرتا۔ آپ نے اللّٰہ کی صفات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’جب ہماری خواہشات کا علم رکھنے کے باوجود اس نے ان کو پوراکرنے سے انکار کیا تو ہم کو سمجھنا چاہیے کہ ایسا کرنا یقینا ناگزیر ہوگا اور اس علیم و خبیر کے علم میں اس سے بہتر کوئی دوسری صورت نہ ہوگی ورنہ وہ اس بہتر صورت ہی کو اختیار کرتا کیوں کہ وہ حکیم ہے اور حکیم کے حق میں یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ اگر بہتر تدبیر ممکن ہو تو اسے چھوڑ کر بدتر صورت اختیار کرے گا۔‘‘ مذکورہ بالا اقتباس کا ایک جملہ ’’علیم و خبیر کے علم میں اس سے بہتر کوئی دوسری صورت نہ ہوگی ورنہ وہ اس بہتر صورت ہی کو اختیار کرتا‘‘ نہ صرف اجتماعِ نقیضین کی ایک واضح مثال پیش کرتا ہے بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کی صفاتِ علیم و خبیر، حکمت و دانائی کا بھی قاری کے ذہن میں عجیب و غریب خاکہ مرتب کرتا ہے۔ اللّٰہ کو علیم و خبیر مان لینے کے بعد اس کے علم کو کسی خاص ’’صورت‘‘ یا ’’تدبیر‘‘ تک محدود کر دینا بجاے خود اس کے علیم و خبیر ہونے کی نفی کرتا ہے۔ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اللّٰہ واقعی کسی ایسے نظام کو نافذ کرنے پر قادر تھا جس میں ان ’’شرور‘‘ کے وقوع کے بغیر خیر کلی کا حصول ممکن ہوتا، تو پھر یہی ایک نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اللّٰہ کم از کم حکیم و دانا نہیں ہے کیونکہ کسی ایسے نظام کے نافذ کر سکنے کے باوجود نافذ نہ کرنا آپ کے نزدیک حکمت و دانائی کے فقدان پر دلالت کرتا ہے اور اگر اللّٰہ کی حکمت و دانائی میں کسی قسم کا شک کرنا کفر قرار پائے اور یہی سمجھا جائے کہ اللّٰہ کی حکمت و دانائی ہر قسم کے شکوک سے بالاتر ہے تو پھر یہی ایک نتیجہ نکالنا ہوگا کہ اللّٰہ کسی ایسے نظام (جس میں ان شرور کے وقوع کے بغیر خیرِ کلی کا حصول ممکن ہو) کو نافذ کرنے پر نہ پہلے کبھی قادر تھا، نہ اب ہے اور نہ کبھی ہوگا۔ امید ہے کہ آپ میری اس اُلجھن کو دور فرمانے کی سعی فرمائیں گے اور کوئی ایسا تسلی بخش جواب عطا فرمائیں گے جس سے کم از کم میرے لیے یہ فیصلہ کرنا سہل ہو جائے کہ آیا اللّٰہ حکیم و دانا ہے، یا قادرِ مطلق، یا یہ کہ اللّٰہ بیک وقت حکیم و دانا بھی ہے اور قادرِ مطلق بھی۔
جواب

آپ کا خط کئی مہینے پہلے مجھے جیل میں ملا تھا۔ مگر وہاں سنسر شپ (censorship)کی جو غیر معقول اور بے ہودہ قیود تھیں ، ان کی وجہ سے میں نے سرے سے خط و کتابت ہی چھوڑ دی تھی۔ اس لیے دوسرے سیکڑوں خطوط کی طرح آپ کے خط کا جواب بھی نہیں دیا۔ اب یہ مختصر جواب دے رہاہوں ۔
آپ نے جس اُلجھن کا ذکر فرمایا ہے اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ آپ اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کے علم اور اس کی حکمت کے تقاضوں میں مطابقت کے بجاے تناقض تلاش کرنے کی فکر میں پڑ گئے ہیں اور اس فکر نے آپ کو ایسے مقام پر لاکھڑا کیا ہے جہا ں ان میں سے کسی ایک کا انکار کیے بغیر آپ کے لیے کوئی چارہ نہیں ہے۔ آپ اس امر واقعی کا انکار تو بہرحال نہیں کرسکتے کہ اس دنیا میں شرور پائے جاتے ہیں ۔ شیطان موجود ہے۔ کفر، شرک، دہریت اور دوسری اعتقادی ضلالتیں موجود ہیں ۔ قتل و خوں ریزی، چوری، ڈاکہ، زنا، عمل قوم لوط اور اسی طرح کی بے شمار دوسری اخلاقی خرابیاں موجود ہیں ۔ نیکی کے مقابلے میں بدی کی قوتیں ہر طرف علانیہ کام کر رہی ہیں اور ان کی بدولت طرح طرح کے ظلم رونما ہو رہے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ خدا ایسا عالم پیدا کرنے پر قادر تھا یا نہ تھا جس میں یہ برائیاں وجود میں نہ آتیں اور ان کے بغیر خیر کو پروان چڑھنے کا موقع ملتا؟ اگر وہ قادر تھا اور اس نے ایسا نہ کیا تو آپ اسے معاذ اللّٰہ حکمت اور عدل اور خیر سے عاری ثابت کیے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں اور اگر وہ اس پر قادر نہ تھا تو پھر آپ کے طرزِ استدلال کی رو سے وہ لامحالہ عاجز ہی قرار پاتا ہے۔ یہ لازمی نتیجہ ہے منطق کے ایسے استعمال کا جو صفاتِ الٰہی میں تطبیق کے بجاے تناقض تلاش کرنے کی طرف انسان کو لے جائے۔ میں نے اس کے برعکس تطبیق کی کوشش کی ہے اور یہ سمجھانا چاہا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی پیدا کردہ دنیا میں شرور کے پائے جانے سے گھبرانا نہ چاہیے بلکہ اس کی حکمت پر بھروسا رکھنا چاہیے۔ جب اس نے دنیا کا یہ نظام اس طرح بنایا ہے تو ضرور حکمت کا تقاضا ایسے ہی نظام کی تخلیق ہوگا اور اس کے سوا کوئی دوسرا خالی از شرور نظام بنانا خلافِ حکمت ہوگا۔ میری اس توجیہ سے اگر آپ کا اطمینان نہیں ہے تو آپ دو صورتوں میں سے ایک صورت اختیار فرمائیں یا تو تطبیق کی کوئی دوسری بہتر شکل تجویز کرکے میری راہ نمائی کریں ۔ یا پھر خدا کے متعلق اس بات کا فیصلہ کر دیں کہ آیا آپ کے نزدیک وہ قدرت سے خالی ہے یا حکمت سے؟
(ترجمان القرآن، فروری۱۹۶۵ء)