طلاق کے بعد نفقہ

بعض اوقات اس طرح کی صورت حال سامنے آتی ہے کہ ایک شخص کو معاشی طور پر مستحکم کرنے میں اس کی بیوی اس کا ساتھ دیتی ہے اور وہ اس کے تعاون کی وجہ سے کسی اچھے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ پھر کسی چھوٹے موٹے اختلاف کی بنا پر ان میں علاحدگی ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد عورت کے تمام حقوق ختم ہوجاتے ہیں ۔ اس کا کیا جواز ہے؟ اس طرح کی خواتین کے نان نفقہ کا کون ذمے دار ہوگا؟ بعض لوگ بڑی آسانی سے اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ اس عورت کا باپ اس کے نان نفقہ کا ذمے دار ہوگا۔ لیکن عقلی لحاظ سے یہ بات بڑی عجیب سی معلوم ہوتی ہے کہ ایک عورت نے شادی کے چالیس پچاس برس جو اس کی زندگی کے بہترین ایام تھے، شوہر کے ساتھ گزارے، مثبت طریقے سے اپنے فرائض ادا کیے، اچھا تعاون (Contribute) کیا، اب وہ اچانک باپ کے گھر آجائے۔ ضعیف العمر باپ پر بیٹی کے نان نفقہ کی ذمے داری ڈالنا کیا خلاف عقل نہیں ہے؟
جواب

جو صورت آپ نے بیان کی ہے اس طرح کی بعض اور صورتیں بھی بیان کی جاسکتی ہیں ، جس میں عورت کے نان نفقہ کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ جیسے جو بچی یتیم ہے اس کے نان نفقہ، تعلیم و تربیت اور شادی کا ذمے دار کون ہوگا؟ اسی طرح جس عورت کو شوہر طلاق دے یا اس کا انتقال ہوجائے تو اس کے مستقبل کا کیا ہوگا؟ جب کہ یہ واقعات عین جوانی میں بھی پیش آسکتے ہیں اور ادھیڑپن اور بڑی عمر میں بھی ان سے سابقہ پڑسکتا ہے۔ اس معاملہ میں شریعت کا قاعدہ یہ ہے کہ جو عورت اپنی معاش کا بوجھ خود نہ اٹھا سکے اس کی ذمے داری اس کے قریب ترین مرد رشتہ دار پر عائد ہوگی ـــــ البتہ بیوی اگر خوش حال ہو تو بھی مرد پر اس کا نفقہ واجب ہے ـــــ یتیم بچی کا ذمے دار اس کا قریب ترین وارث ہوگا۔ جیسے دادا، بھائی، چچا وغیرہ۔ اسی طرح کسی جوان عورت کے شوہر کا انتقال ہوگیا یا اسے طلاق ہوگئی اور وہ اپنے مصارف کی تکمیل کا کوئی ذریعہ نہیں رکھتی ہے تو وہ باپ کے پاس ان تمام حقوق کے ساتھ آجائے گی جو شادی سے پہلے اسے حاصل تھے۔ بڑی عمر کی عورت اس صورت حال سے دوچار ہو تو اس کی اولاد اس کے اخراجات کی ذمے دار ہوگی۔ اس طرح شریعت میں نفقات کا ایک سسٹم ہے اس کے تحت یہ مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم شریعت کی پابندی نہ کریں اور مسائل کو ناقابل حل سمجھ بیٹھیں ۔ اب آپ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسی مثالیں پیش کریں کہ ایک عورت کا نہ باپ ہے، نہ بیٹا ہے، نہ بھائی ہے، نہ چچا ہے اور ہے تو اس کا معاشی بوجھ برداشت کرنے کے موقف میں نہیں ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس صورت میں اسلام نے ریاست کی یہ ذمے داری قرار دی ہے کہ وہ اس کا مسئلہ حل کرے۔ اگر وہ اس سے غفلت برت رہی ہے تو اپنا فرض نہیں ادا کر رہی ہے۔ جو ریاست کسی ایسی عورت کی کفالت نہ کرے جو بے یار و مددگار ہے اور جس کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے تو اس کا وجود بے معنی ہے۔ درحقیقت ایک اسلامی معاشرہ اور اسلامی ریاست میں کسی ایسی بے کس و بے بس عورت کا تصور مشکل ہی سے کیا جاسکتا ہے جس کا کوئی کفیل نہ ہو۔