عبادات کے اخلاقی فوائد

خطبات میں عبادات کے مقاصد کے تذکرے پر یہ اعتراض اُٹھایا گیا ہے کہ آپ نے صرف ان کے دنیوی فوائد کا تذکرہ کیا ہے اور انھی کو اہم بتایا ہے۔ عبادات کے اخروی فوائد کا یا تو ذکر ہی نہیں کیا، یا اگر کیا بھی ہے تو ثانوی درجے کی حیثیت سے۔اس کے جواب میں بھی ہم اپنے علم کے مطابق وضاحت کی کوشش کرتے رہے ہیں مگر معترضین ہمارے جواب سے مطمئن نہیں ہوتے۔ بہرحال ان مسائل میں کتابوں کے اصل مصنف کی تصریحات کا مطالبہ عام طور پر کیا جاتا ہے اور ہم بھی یہی راے رکھتے ہیں کہ خود آپ کی توضیح زیادہ مفید ہوگی۔ بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کتابوں کی عبارتوں میں ضروری ترمیم کردی جائے۔ آخر میں یہ خوش خبری بھی عرض خدمت ہے کہ اندھی مخالفت کا یہ طوفان جتنا جتنا زور پکڑ رہا ہے،ہماری دینی دعوت بھی اسی کے ساتھ روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔آپ ہمارے لیے خدا تعالیٰ سے دعا فرمایئے۔
جواب

خطبات میں عبادات کے دنیوی نہیں بلکہ اخلاقی فوائد کو میں نے زیادہ نمایاں کرکے پیش کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ میں اخروی فوائد کا قائل نہیں ہوں یا انھیں کم اہمیت دیتا ہوں ۔بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے لوگوں کی نگاہوں سے عبادات کے اخلاقی، اجتماعی اور تمدنی فوائد اوجھل ہوگئے ہیں ، اور ان کے اوجھل ہوجانے کی وجہ سے لوگ ان عبادات سے غفلت برتنے لگے ہیں ۔اس لیے میں نے ان پہلوئوں کو زیادہ نمایاں کیا ہے۔نمایاں وہی چیز کی جاتی ہے جو مخفی ہو یا جس سے عموماً لوگ غافل ہوں ،نہ کہ وہ چیز جس سے پہلے ہی لوگ واقف ہوں ۔
آخر میں دُعا کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ آپ لوگوں کی مدد فرمائے اور فتنہ پردازوں سے آپ کی حفاظت فرمائے۔ نبیﷺ ایسے موقع پر دُعا فرمایا کرتے تھے:
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُ بِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ۔({ FR 1833 })
یہی دُعا میں بھی مانگتا ہوں ۔جو لوگ محض نفسانیت اور تعصب اور حسد کی بنا پر ہمارے خلاف طرح طرح کے فتنے اُٹھا رہے ہیں اور محض اپنے ذاتی کینے کی وجہ سے اُس خیر کا راستہ روکنا چاہتے ہیں جس کے لیے ہم کوشش کررہے ہیں ،ان کے شر سے ہم خدا کی پناہ مانگتے ہیں اور خدا ہی سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ان سے نمٹ لے۔ (ترجمان القرآن، مارچ تا مئی ۱۹۵۱ء)