عمل قوم لوط کی سزا

مجھ سے چند وکیلوں نے یہ پوچھا کہ قرآن میں زنا کی حدتو بیان کی گئی ہے لیکن عمل قوم لوط کی سزا بیان نہیں کی گئی ہے۔ اسلام میں اس بدکاری کی سزا کیا ہے؟ یا اس جرم کی کوئی سزا نہیں ہے؟ میں ان وکلا کو جواب نہیں دے سکا۔ مہربانی کرکے اسلامی شریعت میں اس جرم کی جوسزا ہواس کو وضاحت سے لکھیے اورمناسب معلوم ہوتاہے کہ زندگی میں شائع کردیجیے۔

جواب

خود مجھ سےمتعد د افراد نے اس جرم کی سزا کے بارے میں متعدد مواقع پرسوالات کیے ہیں اوران کے سوال کا انداز کچھ ایسا رہاہے جیسے یہ جرم کوئی زیادہ سنگین جرم نہ ہو۔ میں اختصار کے ساتھ ان کو زبانی جواب دیتا رہاہوں۔ اب یہ ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ذرا تفصیل سے اس کے بارے میں جواب قلم بند کیاجائے۔

(۱) پہلی بات یہ کہ تمام علماء امت اور ائمہ دین کے نزدیک یہ عمل بد قابل سزا ہے۔ البتہ ان کے اندر یہ اختلاف ہے کہ اس فعل کے مرتکب کو بطور حد سزا دی جائے گی یا بطور تعزیر۔ حداس سزا کو کہتے ہیں جو شریعت اسلامی نے کسی جرم کے لیے مقرر کردی ہے، اس میں کسی کو کمی بیشی کا کوئی اختیارنہیں ہے۔ جیسے زنا یا چوری کی سزا جو قرآن مجید میں مقرر کردی گئی ہے، یا وہ مقررہ سزا جس پرعلماء امت کا اجماع ہے۔ اور تعزیر اس سزا کو کہتے ہیں جو شریعت نے مقرر نہیں کی ہے بلکہ اس کو امام المسلمین یا قاضی کے اجتہاد اوراختیار تمیزی پر چھوڑدیاہے۔

(۲) ائمہ دین اور فقہاء امت کی کثیر تعدادکے نزدیک اس فعل بد کے مرتکب کو بطورحد سزادی جائے گی۔ امام شافعیؒ کا مشہورقول یہ ہے اس فعل کے فاعل پروہی حد جاری کی جائےگی جو زانی پرجاری کی جاتی ہے۔اگر وہ غیرشادی شدہ ہوگاتو اس کو ایک سوکوڑے مارے جائیں گے اورایک سال کے لیے شہر بدر کردیاجائے گااوراگر وہ شادی شدہ ہوگا تواس کو رجم یعنی سنگسار کرنے کی سزادی جائے گی۔ البتہ مفعول بہ یعنی جس کے ساتھ برافعل کیاگیا ہوگا اس کو صرف کوڑے اورجلاوطنی کی سزادی جائے گی، سنگسار نہیں کیا جائے گا۔ فقہاء احناف میں صاحبین یعنی امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کے نزدیک اس فعل کے فاعل کو وہی سزادی جائے گی جو زانی کی سزا ہے۔ اگر غیرشادی شدہ ہوگا تو ایک سوکوڑے مارے جائیں گے اور اگر شادی شدہ ہوگا تورجم کی سزادی جائے گی۔

امام مالک اور امام احمد رحمہما اللہ کے نزدیک اس فعل کے فاعل کو رجم کی سزادی جائے گی، خواہ شادی شدہ ہویا غیرشادی شدہ۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ چاراماموں میں سے تین امام اور فقہاء احناف میں سے امام ابویوسفؒ اورامام محمدؒ کے نزدیک عمل قوم لوط زنا کے حکم میں داخل ہے۔ بلکہ امام مالک اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک تو یہ فعل زنا سے بھی بڑا جرم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں امام اس فعل کے فاعل کے لیے صرف رجم کی سزا کے قائل ہیں، خواہ اس فعل کا مرتکب شادی شدہ ہو یا غیرشادی شدہ۔

(۳) امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اس فعل کے فاعل کو بطور تعزیر سزادی جائے گی۔تعزیری سزا قیدبھی ہوسکتی ہے اورقتل بھی۔ ان کے مسلک میں اس فعل کے فاعل کو قتل کی سزااس وقت دی جاسکتی ہے جب وہ اس کا عادی ہوگیاہو،خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ۔ امام ترمذیؒ نے اپنی کتاب الجامع للترمذی میں صرف ان ائمہ فقہ کے اقوال لکھے ہیں جو اس فعل کے فاعل پرحدواجب قراردیتے ہیں۔ انھوں نے امام ابوحنیفہؒ کا قول نقل نہیں کیا۔ ان کی عبارت یہ ہے 

واختلف اھل العلم فی اللوطی فرأہ بعضھم ان علیہ الرجم احصن اولم یحصن، وھذا قول مالک والشافعی واحمد واسحاق، وقال بعض اھل العلم من فقھاء التابعین منھم الحسن البصری وابراھیم النخعی وعطاء بن رباح وغیرھم قالوا حد اللوطی حد الزانی وھو قول الثوری واھل الکوفۃ۔ ({ FR 1622 })

(ترمذی ج۱ ابواب الحدود)

’’لوطی کے بارے میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے۔ ان میں بعض کی رائے یہ ہے کہ اس پر رجم واجب ہے۔ عام ازیں کہ وہ شادی شدہ ہویا غیرشادی شدہ۔ اور یہی قول ہے مالک، شافعی، احمد اور اسحاق کا۔ اور فقہاء تابعین میں سے بعض اہل علم جن میں حسن بصری، ابراہیم نخعی، عطا بن رباح اوردوسرے شامل ہیں، نے یہ کہا ہے کہ لوطی کی حدوہی ہے جو زانی کی ہے۔ اور یہی قول سفیان ثوری اوراہل کوفہ کا ہے۔‘‘

اس مسئلہ میں اختلاف فقہ حنفی کے تمام متون وشروح میں منقول ہے۔ امام محمد نے اپنی کتاب الجامع الصغیر میں لکھا ہے

رجل عمل عمل قوم لوط فانہ یعزر ویودع فی السجن فقال ابو یوسف ومحمد رحمھمااللہ یحد                                         (کتاب الحدود)

’’کسی مرد نے قوم لوط کا عمل کیا تو اس کو تعزیری سزادی جائے گی اوراس کو قید خانے میں ڈال دیاجائے گا۔ اور ابویوسف ومحمد رحمہما اللہ نے کہا کہ اس پر حد جاری کی جائے گی۔‘‘

صاحب فتح القدیر اور دوسرے فقہائے احناف نے اس کی بھی صراحت کی ہے کہ امام اعظم کے نزدیک اگر کوئی شخص اس عمل کا عادی ہوجائے تو امام اس کو تعزیراً قتل کردےگا۔ قتل کی متعدد صورتیں اختیارکی جاسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ اس کوآگ میں جلادیاجائے، دوسری یہ کہ اس پر کوئی دیوار اس طرح ڈھادی جائے کہ وہ اس کے نیچے دب کر مرجائے اور تیسری یہ کہ اس کو کسی بلند عمارت سے سرکے بل گراکر اس پر پتھر برسائے جائیں۔                                             (درمختار)

کسی اجنبی مرد کے ساتھ بدفعلی عقلاً وشرعاً وطبعاً ایک قبیح فعل ہے۔ یہ کسی حال میں جائز نہیں ہے اور کسی اجنبی عورت کے ساتھ ہم بستری عقلاً اور شرعاً قبیح ہے، طبعاً قبیح نہیں ہے۔ نیز یہ کہ اگر اس عورت سے نکاح کرلیاجائے تو اس کے ساتھ ہم بستری کافعل جائز اور حلال ہوجاتاہے۔ معلوم ہوا کہ عمل قوم لوط کی قباحت وشناعت زنا سے شدید تر ہے۔                                       (البحرالرائق)

امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک اس پر حدواجب نہ ہونے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یہ جرم ان کے نزدیک زنا سے ہلکا ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وجوب حد کے لیے کوئی مضبوط شرعی دلیل موجود نہیں ہے۔ اور جہاں تک تعزیراً سزا کا تعلق ہے ان کے نزدیک اس جرم کی سزا ہلکی نہیں ہے۔

مسالک فقہ کی اس تفصیل کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دلائل بھی اختصار کے ساتھ پیش کردیے جائیں۔

(۴) وجوب حد کے قائلین زنا کی قانونی تعریف اس طرح کرتے ہیں کہ عمل قوم لوط بھی اس کے اندر داخل ہوجاتاہے۔ شافعیہ اس کی تعریف اس طرح کرتے ہیں ’’شرم گاہ کو ایسی شرم گاہ میں داخل کرنا جو شرعاً حرام ہو۔‘‘ مالکیہ کے نزدیک اس کی تعریف یہ ہے ’’شرعی حق یا اس کے شبہ کے بغیر قبل یادبر میں مرد یا عورت سے وطی کرنا۔‘‘ قران مجید میں جس طرح زنا کے لیے ’فاحشہ‘ کالفظ استعمال ہواہے اسی طرح لواطت کے لیےبھی ’فاحشہ‘ کا لفظ استعمال ہواہے۔

’’اور لوط کو ہم نے پیغمبربناکر بھیجا۔ پھریاد کرو جب اس نے اپنی قوم سے کہاکیا تم ایسے بے حیا ہوگئے ہوکہ وہ فحش کام کرتے ہوجو اس سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا۔ تم عورتوں کو چھوڑکرمردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو۔‘‘            (الاعراف۸۰۔۸۱)

اس سے یہ مستنبط ہوتا ہے کہ جو سزا زنا کے لیے مقررکی گئی ہے وہ اس غیرفطری فعل کے لیے بھی ہونی چاہیے۔ تیسری دلیل احادیث ہیں۔

عن ابن عباس قال قال رسول اللہ علیہ وسلم من وجدتموہ یعمل عمل قوم لوط فاقتلواالفاعل والمفعول بہ۔               (ترمذی،ابواب الحدود)

’’حضرت عبداللہبن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جس کو تم پائو کہ وہ قوم لوط کا عمل کرتا ہے تو فاعل اورمفعول بہ دونوں کو قتل کردو۔‘‘

یہ حدیث ابودائود، ابن ماجہ اور مسند احمد اور حدیث کی دوسری کتابوں میں بھی ہے۔ بعض احادیث میں یہ ہے کہ فاعل ومفعول دونوں قتل کردیے جائیں، خواہ وہ شادی شدہ ہوں یا غیرشادی شدہ۔ بعض احادیث میں ہے کہ دونوں کو رجم کردو۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی حدیث ہی کے پیش نظر امام شافعی کاایک قول یہ ہے کہ دونوں کو تلوار سے قتل کردیاجائے۔

(۵) امام ابوحنیفہؒ کی طرف سے کہاجاتا ہے کہ لغۃً وشرعاً زنا کا لفظ عمل قوم لوط کے لیے استعمال نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس فعل بد کے لیے نہ تو قرآن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور نہ کسی صحیح حدیث میں۔ نیز یہ کہ فاحشہ کے لفظ سے استنباط صحیح نہیں ہےکیوں کہ یہ لفظ ہراس قول وفعل کے لیے بولا جاتا ہے جس کی قباحت وشناعت کھلی ہوئی ہو۔

احادیث جو پیش کی جاتی ہیں وہ صحت کے اس درجہ پر نہیں ہیں جن سے کوئی حد شرعی ثابت ہوسکے۔ اگر اس فعل کے لیے کئی طرح کی سزائیں منقول ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی حدیث میں جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ان سے معلوم ہوتاہے کہ قتل کی سزا اس وقت دی جائے گی جب کوئی شخص باربار اس فعل کا ارتکاب کرے۔ اس میں مضارع کا صیغہ استعمال کیاگیا ہے جو تکرارکو چاہتاہے۔ کسی قابل استناد حدیث سے یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ پہلی بار اس فعل کے ارتکاب پرقتل کی سزا دے دی جائے۔اگر پہلی بار کسی سے اس فعل بدکا ارتکاب ہوتو زجر وتوبیخ سے کام لیا جائے اور اس کو قید خانہ میں ڈال دیاجائے یہاں تک کہ وہ توبہ کرے اور اصلاح حال کے لیے آمادہ ہوجائے۔ اور اگر باربار اس سے اس کاارتکاب ہوتو تعزیراً اس کو قتل کردیاجائے۔ امام اعظم ہی کی رائے زیادہ قوی معلوم ہوتی ہے۔

امام بیہقی نے شعب الایمان میں یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت خالد بن ولیدؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو لکھا کہ انھوں نے عرب کے بعض علاقوں میں ایک ایسا شخص پایا ہے جس کے ساتھ اسی طرح بدفعلی کی جاتی ہے جس طرح عورت سے وطی کی جاتی ہے(گویا اس شخص نے اپنا یہ پیشہ بنالیاتھا)۔ حضرت ابوبکرؓ نے صحابہ کو جمع کیا اور ان سے اس شخص کی سزا کے بارے میں سوال کیا۔ صحابہ نے مختلف سزائیں تجویز کیں۔ ان میں سب سےسخت حضرت علیؓ نے تجویز کی۔ انھوں نے کہاہماری رائے یہ ہے کہ اس کو آگ میں جلادیاجائے۔ صحابہ نے اس رائے سے اتفاق کیا۔                    (تفسیر مظہری ج۲ص۲۴۵)

اس واقعہ سے دوباتیں بوضاحت معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ عمل قوم لوط کے لیےکوئی حد مقررنہ تھی۔ اگر کوئی حد مقرر ہوچکی ہوتی تو صحابہ کرام مختلف سزائیں تجویز نہ کرتے۔ حضرت علیؓ نے تعزیراً ایک سزا تجویز کی۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ معاملہ ایک ایسے شخص کا تھا جس نے مفعولیت کو عادتاً یا بطور پیشہ اختیار کرلیاتھا۔ ایسا نہ تھا کہ پہلی بار اس نےاس جرم کا ارتکاب کیاہو۔       (ستمبر۱۹۸۰ء ج۶۵ش۳)