غرق ہونے والے فرعون کی لاش (سورہ یونس، آیت ۹۲)

اگر تھوڑی سی فراغت ہو تو از راہِ کرم فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ ({ FR 2258 }) (یونس:۹۲) کے سلسلے میں میری ایک دو اُلجھنیں دور فرمائیے۔ علامہ جوہری طنطاوی مصری اس آیت کے تحت فرماتے ہیں کہ بحیرئہ احمر میں ڈوبنے والے فرعون کی لاش۱۹۰۰ء میں مل گئی تھی اور مفتّش نے کئی شواہد کی بنا پر اعلان کیا تھا کہ یہ لاش اسی فرعون کی ہے۔ لیکن علامہ نے ان شواہد کا ذکر نہیں کیا۔ آپ نے صرف ایک شہادت یعنی سمندری نمک کا ذکر فرمایا ہے جو فرعون کے بدن پر پایا گیا تھا۔ اگر آپ کو باقی شہادتوں کا علم ہو، یا کوئی ایسی کتاب معلوم ہو جس میں ان شواہد کا ذکر ہو تو ازراہِ کرم مطلع فرمائیں ۔ آپ نے فرعون کے جسم پر سمندری نمک کا ذکر فرمایا ہے۔ کیا اس کی ممی حنوط شدہ نہیں تھی؟ اگر تھی تو سمندری نمک کیسے باقی رہ گیا تھا؟ کیا نعش کسی ہرم سے ملی تھی یا معمولی قبر سے؟ اور یہ مقام کہاں ہے؟ قاہرہ سے کس طرف ہے اور کتنا دور ہے؟
جواب

غرق شدہ فرعون کے بارے میں زیادہ تر معلومات مجھے (Louis Golping) کے سفر نامے (In the Steps of Moses: the Law Giver) سے حاصل ہوئی ہیں ۔ اس نے اپنے اس تحقیقاتی سفرنامے میں لکھا ہے کہ فرعون رعمسیس دوم دراصل وہ فرعون تھا جس کے زمانے میں حضرت موسیٰ ؈پیدا ہوئے تھے اور بنی اسرائیل پر جس کے مظالم مشہور و معروف ہیں ۔ اسی لیے اس کو (Pharaoh of the persecution) کہا جاتا ہے۔ اور جس فرعون کے زمانے میں حضرت موسیٰ ؈ پیغمبر بنا کر بھیجے گئے تھے اور جو بحر احمر میں غرق ہوا وہ رعمسیس کا بیٹا (Merneptah) تھا (انسائی کلو پیڈیا برٹانیکا میں اس کا نام (Merneptah) لکھا گیا ہے)۔ گولڈنگ کی کتاب اور برٹانیکا کے مضمون (Egypt) دونوں میں لکھا ہے کہ تھیبس (thebes) میں اس کے (mortuary temple) سے ایک ستون۱۸۹۶ء میں Flinders Petric کو ملا تھا جس پر اس نے اپنے عہد کے کارنامے گنائے تھے۔ اسی ستون میں پہلی مرتبہ مصر میں اسرائیل کے وجود کی تاریخی شہادت ملی۔ برٹانیکا کے مضمون (mummy) میں ذکر ہے کہ۱۹۰۶ء میں انگریز ماہر علم التشریح (Sir Grafton Elliot Smith) نے ممیوں کو کھول کھول کر ان کے حنوط کی تحقیق شروع کی تھی اور۴۴ ممیوں کا مشاہدہ کیا تھا۔ گولڈنگ لکھتا ہے کہ۱۹۰۷ء میں اسمتھ کو منپتہ کی لاش ملی جس کی پٹیاں جب کھولی گئیں تو سب حاضرین یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس کے جسم پر نمک کی ایک تہ جمی ہوئی تھی جو کسی اور ممی کے جسم پر نہیں پائی گئی۔ گولڈنگ مزید یہ بات بھی بیان کرتا ہے کہ یہ فرعون بُحیرات مُرَّہ (bitter lakes) میں غرق ہوا تھا جو اس زمانے میں بحر احمر سے ملی ہوئی تھیں ۔ آگے چل کر وہ لکھتا ہے کہ جزیرہ نمائے سینا کے مغربی ساحل پر ایک پہاڑی ہے جسے مقامی لوگ جبل فرعون کہتے ہیں ۔ اس پہاڑی کے نیچے ایک غار میں نہایت گرم پانی کا چشمہ ہے جسے لوگ حمام فرعون کہتے ہیں اور سینہ بسینہ منتقل ہونے والی روایات کی بنا پر یہ کہتے ہیں کہ اسی جگہ فرعون کی لاش ملی تھی۔
میں ان معلومات سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ بحیرات مرہ میں ڈوبنے کے بعد اس کی لاش کے پھول کر سطح سمندر پر تیرنے اور حمام فرعون تک پہنچنے میں کافی وقت لگا ہوگا جس کے دوران میں اس کے گوشت پوست میں سمندری پانی کا نمک جذب ہوگیا ہوگا۔ یہ نمک اس کی لاش کو حنوط کرتے وقت خارج نہیں کیا جا سکتا تھا۔ تین ہزار برس کے دوران میں یہ رفتہ رفتہ اس کے جسم سے خارج ہوکر ایک تہ کی صورت میں جم گیا اور جب پٹیاں کھولی گئیں تو نمک اس پر جما ہوا پایا گیا۔
(ترجمان القرآن، جنوری ۱۹۷۷ء)