غلافِ کعبہ اوربدعتِ مذمومہ

غلاف کی نمائش وزیارت اور اسے جلوس کے ساتھ روانہ کرنا ایک بدعت ہے۔کیوں کہ نبیﷺ اور خلافت راشدہ کے دور میں کبھی ایسا نہیں کیا گیا، حالاں کہ غلاف اس زمانے میں بھی چڑھایا جاتا تھا۔اگر غلاف کی نمائش کرنا اور اس کا جلوس نکالنا جائز ہے تو پھر ہدی کے اونٹوں کا جلوس کیوں نہ نکالا جائے جنھیں قرآن نے صراحت کے ساتھ شعائر اﷲ قرار دیا ہے۔ اس ضمن میں یہ بہت ضروری ہے کہ آپ بدعت کے مسئلے کو اصولی طور پر واضح کریں اور بتائیں کہ شریعت میں جو بدعت مکروہ ومذموم ہے، اس کی تعریف کیا ہے اور اس کا اطلاق کس قسم کے افعال پر ہوتا ہے۔
جواب

کسی فعل کو بدعت مذمومہ قرار دینے کے لیے صرف یہی بات کافی نہیں ہے کہ وہ نبیﷺ کے زمانے میں نہ ہوا تھا۔لغت کے اعتبار سے تو ضرور ہر نیا کام بدعت ہے۔مگر شریعت کی اصطلاح میں جس بدعت کو ضلالت قرار دیا گیا ہے ،اس سے مراد وہ نیا کام ہے جس کے لیے شرع میں کوئی دلیل نہ ہو، جو شریعت کے کسی قاعدے یا حکم سے متصادم ہو، جس سے کوئی ایسا فائدہ حاصل کرنا یا کوئی ایسی مضرت رفع کرنا متصور نہ ہو جس کا شریعت میں اعتبار کیا گیا ہے، جس کا نکالنے والا اسے خود اپنے اوپر یا دوسروں پر اس ادعا کے ساتھ لازم کرلے کہ اس کا التزام نہ کرنا گناہ اور کرنا فرض ہے۔ یہ صورت اگر نہ ہو تو مجرد اس دلیل کی بِنا پر کہ فلاں کام حضور ﷺ کے زمانے میں نہیں ہوا، اسے’’بدعت‘‘ بمعنی ضلالت نہیں کہا جاسکتا۔امام بخاری نے (کتاب الجمعہ) میں چار حدیثیں نقل کی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ عہد رسالت اور عہد شیخین میں جمعہ کی صرف ایک اذان ہوتی تھی، حضرت عثمانؓ نے اپنے دَورمیں ایک اذان کا اور اضافہ کردیا۔ لیکن اسے بدعت ضلالت کسی نے بھی قرار نہیں دیا، بلکہ تمام اُمت نے اس نئی بات کو قبول کرلیا۔بخلاف اس کے انھی حضرت عثمان ؓنے منیٰ میں قصر کرنے کے بجاے پوری نماز پڑھی تو اس پر اعتراض کیا گیا۔ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ صلاۃ ضحی کے لیے خود بدعت اور احداث کا لفظ استعما ل کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ مِنْ أَحْسَنِ مَا أَحْدَثُوا({ FR 1085 }) ’’یہ ان بہترین نئے کاموں میں سے ہے جو لوگوں نے نکال لیے ہیں ۔‘‘ بِدْعَةٌ، وَنِعْمَتِ الْبِدْعَةُ({ FR 1086 }) ’’بدعت ہے اور اچھی بدعت ہے۔‘‘ [إِنَّہَا لَمِنْ أَحَبِّ مَا أَحْدَثَ النَّاسُ إِلَيَّ]({ FR 1087 })’’ لوگوں نے کوئی ایسا نیا کام نہیں کیا ہے جو مجھے اس سے زیادہ پسند ہو۔‘‘ حضرت عمرؓ نے تراویح کے بارے میں وہ طریقہ جاری کیا جو نبیﷺ اور حضرت ابو بکر ؓ کے عہد میں نہ تھا۔ وہ خود اسے نیا کام کہتے ہیں اور پھر فرماتے ہیں : نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ هَذِهِ({ FR 1088 }) ’’یہ اچھا نیا کام ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ مجرد نیا کام ہونے سے کوئی فعل بدعت مذمومہ نہیں بن جاتا بلکہ اسے بدعت مذمومہ بنانے کے لیے کچھ شرائط ہیں ۔
امام نووی شرح مسلم( کتاب الجمعہ) میں کلّ بدعۃ ضلالۃ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’علما نے کہا ہے کہ بدعت( یعنی باعتبار لغت نئے کام ) کی پانچ قسمیں ہیں ۔ایک بدعت واجب ہے۔ دوسری بدعت مندوب (یعنی پسندیدہ) ہے جسے کرنا شریعت میں مطلوب ہے۔ تیسری بدعت حرام ہے۔چوتھی مکروہ ہے۔ اورپانچویں مباح ہے۔اور ہمارے اس قول کی تائید حضرت عمرؓ کے اس ارشاد سے ہوتی ہے جو انھوں نے نماز تراویح کے بارے میں فرمایا۔‘‘({ FR 1089 })
علامہ عینی ؒ عمدۃ القاری (کتاب الجمعہ) میں عبد بن حمید کی یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ ’’جب مدینہ کی آبادی بڑھ گئی اور دُور دُور مکان بن گئے تو حضرت عثمانؓ نے تیسری اذان کا (یعنی اس اذان کا جو اب جمعہ کے روز سب سے پہلے دی جاتی ہے) حکم دیا اور اس پر کسی نے اعتراض نہ کیا، مگر منیٰ میں پوری نماز پڑھنے پر اعتراض کیا گیا۔‘‘({ FR 1090 })
حافظ ابن حجر فتح الباری (کتاب التراویح) میں حضرت عمر ؓ کے قول نعمت البدعۃ ھذہ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’ بدعت ہر اس نئے کام کو کہتے ہیں جو کسی مثال سابق کے بغیر کیا گیا ہو ۔مگر شریعت میں یہ لفظ سنت کے مقابلے میں بولا جاتا ہے اور اسی بنا پر بدعت کو مذموم کہا جاتا ہے۔ اور تحقیق یہ ہے کہ جو نیا کام شرعاً مستحسن کی تعریف میں آتا ہووہ اچھا ہے، اور جو شرعاًبرے کام کی تعریف میں آتا ہو،وہ برا، ورنہ پھر مباح کی قسم میں سے ہے۔‘‘({ FR 1091 })
اس اصولی وضاحت کے بعد اب میں عرض کرتا ہوں کہ غلاف کے کپڑے کا جلوس نکالنااور اس کی نمائش کا انتظام کرنا بلاشبہہ ایک نیا کام تھا جو عہد رسالت اور زمانۂ خلافت راشدہ میں نہیں ہوا۔ مگر میں نے یہ کام اس بِنا پر نہیں کیا کہ میں اصلاً اس کی نمائش کرنا چاہتا تھا اور اسے دھوم دھام کے ساتھ بھیجنا ابتدا ہی سے میری اسکیم میں شامل تھا۔ بلکہ میں نے یہ پروگرام اس وقت بنایا جب سارے ملک میں اس کے لیے عوام کے اندر بے پناہ جذبۂ شوق خو دبخود بھڑک اٹھا اور مجھے اندیشہ ہوا کہ یہ شوق اگر خود اپنا راستہ نکالے گا تو بڑے پیمانے پر گمراہی پھیلنے کا موجب بن جائے گا۔ (چنانچہ جہاں جہاں بھی اس نے موقع پاکر خود اپنا راستہ نکالا،بہت بُری طرح نکالا) اس لیے میں نے اس مضرت کو دفع کرنے کی خاطر یہ کام کیا جو شریعت کی نگاہ میں ایک بڑی مضرت تھی۔اس کے لیے ایسا طریقہ تجویز کیا جس سے لوگوں کے جذبات کا سیلاب حدود شرع کے اندر محدود رہ سکے۔ اس کو سیئات کے بجاے ان حسنات کی طر ف موڑنے کی کوشش کی جو شرعاً پسندیدہ ہیں ۔ میرا ہرگز یہ دعویٰ نہ تھا کہ لوگوں کو ضرور غلاف دیکھنا اور اس کے جلوس میں شامل ہونا چاہیے،نہ آئیں گے تو گناہ گار ہوں گے، اور آئیں گے تو یہ اور یہ اجر ملے گا۔اور میرا یہ ارادہ بھی نہیں ہے کہ آئندہ اگر پاکستان ہی میں غلاف بننے لگے اور اس سے میرا کوئی تعلق ہو تو اس کی زیارت کے اہتمام اور جلوسوں کے انتظام کو ایک مستقل طریقہ بنا لوں ۔ اب میں معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ کس فقہی قاعدے سے میں بدعت ضلالت کا مرتکب ہوا ہوں ۔اگر سب وشتم کے بجاے کوئی صاحب دلائل سے مجھے بتادیں کہ پھر بھی یہ بدعت ضلالت ہی ہے تو مجھے نادم اور تائب ہونے میں ذرّہ برابر تأمل نہ ہو گا۔ الحمد ﷲ،میں متکبر نہیں ہوں کہ گناہ کو گناہ جان لینے کے بعد بھی اپنی بات کی پچ میں اس پر اصرار کروں ۔ (ترجمان القرآن، اپریل ۱۹۶۳ء)