فریضۂ اقامت دین اور والدین کی مخالفت

صوبہ جاتی اجتماع سے واپس آنے پر میں یکایک ان پریشانیوں میں مبتلا ہوگیا ہوں جو میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھیں ۔آپ کی شدید مصروفیات کا علم رکھنے کے باوجود ان احوال کا تفصیلی تذکرہ آپ ہی کے اس ارشاد کی بِنا پر کررہا ہوں کہ اس نوعیت کے اُمور سے آپ کو پوری طرح مطلع رکھنا ضروری ہے۔ خیر تو۱۹؍ اکتوبر کو والد مکرم کا جو گرامی نامہ موصول ہوا ہے،وہ لفظ بلفظ درج ذیل ہے:({ FR 1017 }) ’’برخوردارِ نورِ چشم… بعد دعاے ترقی درجات کے واضح ہو کہ اب تم خود مختار ہوگئے ہو،ہماری سرپرستی کی ضرورت نہیں ،کیوں کہ ہم مکان پر بیمار پڑے ہیں اور تم کو جلسوں ({ FR 1020 }) کی شرکت لازم اور ضروری۔ اب اﷲ کے فضل سے نوکر ہوگئے ہو۔ہم نے اپنی تمام کوشش سے تعلیم میں کام یاب کرایا اور اس کا نتیجہ پالیا۔عالم باعمل ہوگئے کہ باپ کا حکم ماننا ظلم اور حکمِ خدا کے خلاف قرار پایا۔ اوروں کا حکم ماں باپ سے زیاد ہ افضل!خیر تمھاری کمائی سے ہم نے اپنی ضعیفی میں بڑا آرام پا لیا۔ آئندہ ایک پیسا بھی ہم لینا نہیں چاہتے۔جو تمھارا جی چاہے کرو اور جہاں چاہے رہو، خواہ سسرال میں یا کسی اورجگہ۔ البتہ ہم اپنی صورت اس وقت تک نہیں دکھلانا چاہتے جب تک جماعت سے استعفا نہ دے دو۔تم نے برابر اس مراق میں (یعنی تحریک اسلامی کی خدمت میں ) سب تعلیم کاکام خراب کردیا۔مگر ہمارا نصیحت کرنابے کار ہے۔ بس یہ واضح رہے کہ ہمارے سامنے نہ آنا۔ ہمار اغصہ بہت خراب ہے۔ فقط۔‘‘ والدِ مکرم کے اس خط کا جواب راقم الحروف نے یہ لکھ دیا: ’’محترمی!کل آپ کا گرامی نامہ بدست… موصول ہوا۔اسے دیکھ کر اور آپ کی بیماری کا حال معلوم کرکے بڑا افسوس ہوا۔یقین جانیے مجھے خبر تک نہ تھی کہ آپ بیمار ہیں ۔نہ آپ نے کوئی خط لکھا نہ مجھے کسی اور ذریعے سے حال معلوم ہوا، ورنہ میں یقیناً وہاں نہ جاتا۔ یہ ایک عذرِ شرعی تھا جس کی بِنا پر سفر کو ملتوی کیا جاسکتا تھا۔ والدین کے احسانات اور ان کی مہربانیوں کا کون انکار کرسکتا ہے۔پھر آپ نے تو اعلیٰ تربیت کی اور دینی تعلیم سے آراستہ کیا۔اسی تعلیم سے مجھے یہ یقین حاصل ہوا کہ دین کو دنیا میں غالب کرنا،خدا کے کلمے کو بلند کرنا، دنیا میں اسلام کا سکہ چلانا اور اس کے لیے کوشش کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔میں نے گردو پیش کی دنیا پر نظر ڈالی اور مجھے ایک ہی جماعت اس مقصد کے لیے صحیح طریقے اور اصلی اوربہترین ڈھنگ سے کام کرتی ہوئی نظر آئی، اور وہ جماعت’’جماعت ِ اسلامی‘‘ ہے۔ اس لیے اگر مجھے دین کو دنیا میں غالب کرنے کے لیے کوشش کرنی ہے تو اس سے منسلک رہنا ضروری ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ دین کے غلبے کی کوشش اگر مسلمان کی زندگی کا مقصد نہیں تو پھر اور کیا مقصد ہے! والدین کا حکم ماننا ضروری!ان کی اطاعت فرض! لیکن کہاں تک،جب تک خدا ورسولؐ کے حکم کے خلاف نہ ہو۔ اگر دین کو غالب کرنا ضروری ہے تو وہ کیا یوں ہی آرام سے بیٹھے ہوئے، بے اَن تھک کوشش کیے ہوئے ہوسکتا ہے؟ کیا یہ کوئی بہت سہل کام ہے؟کیا دین کے لیے اتنی قوت اور اتنا وقت بھی صرف نہیں کرنا چاہیے جتنا ہم اپنے پیٹ کے لیے کرتے ہیں ؟کیا یہ کام تنہا ایک آدمی کے کرنے کا ہے؟بہرحال دین کے لیے جس جماعت میں بھی رہ کر کام کیا جائے گا،اس میں وقت بھی صرف ہوگا،مال بھی خرچ کرناہوگا، تکلیف بھی ہوگی ،کچھ دنیوی کاموں کا حرج بھی ہوگا،اور کسی نہ کسی قوت سے تصادم کا ڈر بھی ہوگا اور آپ پھر منع فرمائیں گے۔پھر لِلّٰہ! آپ ہی بتایے کہ اس کام کی اور کیاصورت ہوسکتی ہے؟آپ کی سرپرستی سے محروم ہوجانا میری انتہائی بدنصیبی ہے۔لیکن یہ تو خیال فرمایے کہ آپ کس چیز سے مجھے منع فرمار ہے ہیں ۔ذرا غور تو کیجیے، کہیں یہ حکم خدا کے خلاف تو نہیں ہے۔ قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُۨ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَہَا وَمَسٰكِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِيْ سَبِيْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰي يَاْتِيَ اللہُ بِاَمْرِہٖ۝۰ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ ( التوبہ:۲۴) ’’اے نبیؐ ! فرما دیجیے کہ اگر تمھارے باپ،تمھارے بیٹے، تمھارے خاندان، تمھارے وہ اموال جو تم نے محنت سے کماے ہیں اور تمھاری وہ سوداگری جس میں گھاٹا پڑجانے سے تم ڈرتے ہو، اور تمھاری مرغوب آرام گاہیں تمھیں اﷲ، اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں سرتوڑ کوشش کرنے کے مقابلے میں محبوب ترہوں ، تو انتظار کرواس گھڑی کا کہ اللّٰہ کا فیصلہ صادر ہوجائے، اوریاد رکھو کہ اﷲ فاسقوں کو ہدایت نہیں بخشتا۔‘‘ میں سخت حیرت اور انتہائی افسوس کے ساتھ دیکھ رہا ہوں کہ دین کے غلبے کے لیے جوکوشش میں کررہا ہوں ،اس پر آپ ناراض ہیں ۔آخر آپ ہی فرمایے کہ اس صورت میں میرا فرض کیا ہے؟مندرجہ بالاآیت کو ملحوظ رکھ کر سوچیے۔ حاضر ہونے کو جی چاہتا ہے مگر آپ کے عتاب سے خائف ہوں ۔دیکھیے آپ کیا اجازت فرماتے ہیں ۔‘‘ یہ جواب اس پس منظر کی بِنا پر لکھا گیا تھا کہ والد صاحب وقت کے ضیاع صَرفِ مال اور خوفِ قوتِ متسلّطہ کی بِنا پر جماعت میں کام کرنے سے منع کرتے ہیں ، نیز یہ کہ ان کے اشارے پر…سے ایک بہت مدلل قسم کا طویل وعریض خط آیا تھا، جس کا ماحصل یہ تھا کہ بہرحال حق واسلام جماعت اسلامی میں منحصر نہیں ، تنہا کام کیجیے یا کسی اور جماعت میں رہ کر۔ والد محترم کی طرف سے مجھے ابھی تک منقولہ بالا عریضے کا جواب نہیں ملا ہے۔ اندریں حالات مناسب ہدایات سے مستفید فرمایئے۔
جواب

آپ نے والد کے عتاب پر جو جواب دیا ہے ،وہ بہت معقول ہے۔مسلمان کی زندگی ایک نہایت متوازن زندگی کا نام ہے جس میں تمام حقوق وفرائض کا مناسب لحاظ ہونا چاہیے اور کسی حق یا فرض کی اضاعت نہ ہونی چاہیے، اِلّایہ کہ ایک حق کو دوسرے حق پر اس حد تک قربان کیا جائے جس حد تک ایسا کرنا شرعاً ضروری ہو۔ والدین کا حق خدا کے حق کے بعد سب سے بڑا ہے۔ لیکن بہرحال خدا کے حقوق کے بعد ہی، اس پر مقدّم کسی طرح نہیں ہے۔ پس جہاں خدا کا حق اداکرنے کے لیے والدین کے حق میں کوئی کمی کرنا بالکل ناگزیر ہو وہاں موقع ومحل کو ٹھیک ٹھیک ملحوظ رکھتے ہوئے صرف اس حد تک کمی کی جائے اور ساتھ ساتھ ان کے عتاب اور خشم کو نہایت تحمل اور تواضع کے ساتھ برداشت کیا جائے۔ ان کی سختی کے مقابلے میں اُف تک نہ کیجیے مگر جس چیز کو آپ اپنی دینی بصیرت کے مطابق دین سمجھتے ہیں اس سے والدین کو خوش کرنے کے لیے بال برابر بھی نہ ہٹیے۔ اولاد پر والدین کی خدمت،اطاعت اور ادب فرض ہے لیکن ان کی خاطر ضمیر کی قربانی فرض نہیں ہے،خصوصاً اس ضمیر کی جو دین کی روشنی سے منورہوچکا ہو۔
اس معاملے میں آپ کو حضرت ابراہیم ؈ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کرنی چاہیے۔ نبی ﷺ کے زمانے میں بھی متعدد صحابہ کرامؓ کو یہ مشکل پیش آچکی ہے۔اس وقت حضورﷺ کی راہ نمائی میں صحابہ کرامؓ نے اپنے ان والدین کے ساتھ جو راہِ حق میں کسی نہ کسی طرح مزاحم ہورہے تھے،جو طرز اختیار کیا،اس کو ملحوظ رکھیے۔
(ترجمان القرآن،جولائی ،اگست۱۹۴۵ء)