فریضۂ رسالت اور حضرت یونس ؈

تفہیم القرآن جلد۲ سورۂ یونس۔ جناب نے تحریر فرمایا ہے کہ ’’حضرت یونس ؈ سے فریضۂ رسالت کی ادائگی میں کچھ کوتاہیاں ہوگئی تھیں ۔‘‘ کیا انبیا ؊ معصوم نہیں ہوتے؟ خصوصاً فریضۂ رسالت میں انبیا سے کوتاہی کیسے ممکن ہے۔ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِo لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْيَمِيْنِo ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِيْنَ (الحاقۃ:۴۴-۴۶) ’’اوراگر اس (نبیؐ) نے خود گھڑ کر کوئی بات ہماری طرف منسوب کی ہوتی تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے اور اس کی رگِ گردن کاٹ ڈالتے۔‘‘ فریضۂ رسالت کی عدم کوتاہی میں تصریح نہیں ؟ اگر نبی سے فریضۂ رسالت میں بھی کوتاہی ہوسکتی ہے تو پھر دین خداوندی کا کیا بچ جاتا ہے؟کیا یہ مضمون موہم ہتک انبیا نہیں ؟
جواب

اس اعتراض کا جواب خود دینے کے بجاے میں قرآن ہی سے دلوانا زیادہ پسند کرتا ہوں ۔ قرآن مجید میں چار مقامات پر حضرت یونس ؈ کا قصہ آیا ہے۔براہِ کرم ان سب کو پڑھ لیجیے۔
سورۂ یونس میں ہے :
فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَۃٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَہَآ اِيْمَانُہَآ اِلَّا قَوْمَ يُوْنُسَ۝۰ۭ لَمَّآ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْھُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنٰھُمْ اِلٰى حِيْنٍ ( یونس:۹۸)
’’پس کیوں نہ ہوئی کوئی ایسی بستی جو(عذاب دیکھ کر)ایمان لائی ہو اور اس کا ایمان اس کے لیے نافع ہواہو؟ سواے یونس کی قوم کے کہ جب وہ لوگ ایمان لے آئے تو ہم نے دنیا کی زندگی میں ان سے رسوائی کا عذاب ہٹا دیا اور ان کو ایک وقت خاص تک سامان زندگی دیا۔‘‘
سورۂ الانبیائ میں ہے:
وَذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّہَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَيْہِ فَنَادٰي فِي الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ۝۰ۤۖ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِــمِيْنَ ( الانبیائ:۸۷)
’’اور یاد کرو مچھلی والے( یونس ؑ )کو جب کہ وہ خفا ہوکر چل دیا اور سمجھا کہ(اس کے چلے جانے پر)ہم گرفت نہ کریں گے۔ ({ FR 1540 })پس وہ پکار اُٹھا تاریکیوں میں کہ تیرے سوا کوئی خدا نہیں ، تو بے عیب ہے، بے شک میں قصور وار ہوں ۔‘‘
سورۂ الصافات میں ہے:
وَاِنَّ يُوْنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَo اِذْ اَبَقَ اِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِo فَسَاہَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِيْنَo فَالْتَقَمَہُ الْحُوْتُ وَہُوَمُلِـيْمٌo فَلَوْلَآ اَنَّہٗ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِيْنَoلَـلَبِثَ فِيْ بَطْنِہٖٓ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ (الصافات:۱۳۹-۱۴۷)
’’اور بے شک یونس رسولوں میں سے تھا۔جس وقت بھاگ گیا وہ بھری ہوئی کشتی کی طرف، تو قرعہ ڈالنے میں (اہل کشتی کے ساتھ) شریک ہوا اور وہی ملزم ٹھیرا۔ پھر نگل لیا اس کو مچھلی نے اور وہ ملامت میں پڑا ہوا تھا۔اگر نہ ہوتا وہ تسبیح کرنے والوں میں سے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ ہی میں رہ جاتا۔‘‘
سورۂ القلم میں ہے:
فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِ۝۰ۘ اِذْ نَادٰى وَہُوَمَكْظُوْمٌo لَوْلَآ اَنْ تَدٰرَكَہٗ نِعْمَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ لَنُبِذَ بِالْعَرَاۗءِ وَہُوَمَذْمُوْمٌ (القلم:۴۸-۴۹)
’’پس اے محمد!صبر کے ساتھ اپنے ربّ کے حکم کا انتظار کرو اور مچھلی والے کی طرح نہ ہو جائو({ FR 1541 }) جب کہ اس نے پکارا اور وہ غم سے گھٹ رہا تھا۔ اگر اس کے ربّ کے احسا ن نے اس کی دست گیری نہ کی ہوتی تو پھینک دیا جاتا چٹیل میدان میں اور وہ رہتا ملامت زدہ۔‘‘({ FR 1542 })
یہ آیات صاف بتا رہی ہیں کہ حضرت یونس ؈ سے کوئی نہ کوئی قصور ضرور سرزد ہوا تھاجس پر انھیں مچھلی کے پیٹ میں پہنچا یا گیا، اور وہ قصور بے صبری کی نوعیت کا تھا، اور لامحالہ وہ فریضۂ رسالت کی ادائیگی ہی کے سلسلے میں ہوا تھا۔ نیزان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یونس ؈ اپنی قوم سے ناراض ہوکر اﷲ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر اپنا مستقر رسالت چھوڑ گئے تھے۔ اسی وجہ سے ان کی قوم کے ساتھ اﷲ تعالیٰ نے وہ خاص رعایت فرمائی جو کبھی کسی قوم کے ساتھ نہ فرمائی گئی تھی، یعنی یہ کہ عذاب دیکھ لینے کے بعد جب وہ ایمان لے آئی تو اسے معاف کردیا گیا۔حالاں کہ اﷲ تعالیٰ کی یہ مستقل سنت ہے کہ عذاب آتے دیکھ کر ایمان لانا کسی کے لیے نافع نہیں ہوتا۔یہ اﷲ تعالیٰ کا اپنا ہی بیان ہے۔اس میں کسی قسم کی کمی وبیشی میں نے اپنی طرف سے نہیں کی ہے۔اب اس پر آپ کو یا کسی اور کو اعتراض ہو تو یہ اعتراض مجھ پر نہیں ، قرآن اور اس کے بھیجنے والے خدا پر ہے،اور اس کا جواب اسی کے ذمے ہے۔آپ کا یہ ارشاد کہ’’کیا یہ مضمون موہم ہتک انبیا نہیں ہے‘‘، اس مفروضے پر مبنی معلوم ہوتا ہے کہ انبیا؊ کی عزت کا خیال آپ کو ان کے بھیجنے والے خدا سے بھی بڑھ کر ہے۔ اگر یہ بات نہیں ہے تو جو مضمون اﷲ نے خود اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے،اس کو موجب ہتک یا موہم ہتک قرار دینے کی اورکیا توجیہ آپ کرسکتے ہیں ؟ ({ FR 1620 })
( ترجمان القرآن، مئی ۱۹۵۶ء)